بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کا حکم


سوال

تراویح سنت ہے یا نفل؟

جواب

رمضان المبارک میں عشاء کی نماز کے بعد بیس رکعات تراویح  کی نماز مردوں اور عورتوں دونوں کے لیےسنتِ مؤکدہ ہے،بلا عذر اس کو چھوڑنے والا نافرمان اور گناہ گار ہے۔ خلفاء راشدین،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین،تابعین،تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین  رحمہم اللہ سے پابندی سے تراویح پڑھنا ثابت ہے،  اور مردوں کے لیے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا سنتِ کفایہ ہے، یعنی اگر محلہ کے چند افراد اس سنت کو جماعت کے ساتھ ادا کرلیں تو  سب کا ذمہ فارغ، ورنہ سب گناہ گار ہوں گے، جو مرد انفرادی تراویح پڑھے گا تو اس کی تراویح کی سنت تو ادا ہوجائے گی، لیکن جماعت کے ثواب سے  محروم رہے گا،اور عورتوں  کے لیے جماعت  سنتِ مؤکدہ  کفایہ نہیں ہے، بلکہ عورتوں کے لیے گھر میں تنہا  پڑھنے میں زیادہ ثواب ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌التراويح سنة) مؤكدة لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعا."

(کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، ج: 2، ص:   43، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح، فلو تركها أهل مسجد أثموا إلا لو ترك بعضهم."

(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد، وهكذا في المكتوبات، كما في المنية، وهل المراد أنها سنة كفاية لأهل كل مسجد من البلدة أو مسجد واحد منها أو من المحلة؟ ظاهر كلام الشارح الأول. واستظهر ط الثاني. ويظهر لي الثالث، لقول المنية: حتى لو ترك أهل محلة كلهم الجماعة فقد تركوا السنة وأساءوا. اهـ".

(کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، ج: 2، ص: 45، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102524

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں