بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹا پیدا ہونے پر اسے حافظ قرآن بنانے کی نذر ماننا


سوال

میرا چھوٹا بیٹا ابھی پیدا نہیں ہوا تھا ،مجھے  بیٹے کی خواہش تھی تو مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے منت مانگی تھی یا ویسے ہی ارادہ کیا تھا کہ اگر میرے گھر بیٹا ہوا تو میں اسے حافظ قرآن بناؤ گی،  اب میرا وہ بیٹا 13،  14 سال کا ہو گیا ہے، لیکن حافظ نہیں بنا سکی تو اگراب وہ حفظ بھی نہ کرے تو کوئی اور حل ہے؟

جواب

نذر کے منعقد ہونے کی من جملہ شرائط میں سے ہے کہ وہ عبادتِ مقصودہ ہو، اور اس کی جنس میں سے  کوئی فرض  عبادت ہو، مباح چیزوں کی نذر لازم نہیں ہوتی، لہذا آپ نے اگر بیٹے کو حافظ بنانے کی نذر مانی بھی تو شرعًا یہ نذر لازم نہیں ہوئی، اور آپ اگر اپنے بیٹے کو حافظ نہیں بناسکیں گی تو گناہ گار نہیں ہوں گی۔

  لیکن بہرحال یہ اللہ تعالی سے ایک وعدہ  ہے؛  اس لیے حتی الامکان اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر کسی وجہ سے  بیٹے کے لیے مکمل حفظ کرنا ممکن نہ ہو تو کم از کم چند سورتیں ہی یاد کرادینا چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 738):

"و لو نذر التسبيحات دبر الصلاة لم يلزمه، و لو نذر أن يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم كل يوم كذا لزمه، و قيل: لا.

)قوله: و لو نذر التسبيحات) لعل مراده التسبيح والتحميد والتكبير ثلاثًا و ثلاثين في كل و أطلق على الجميع تسبيحًا تغليبًا؛ لكونه سابقًا وفيه إشارة إلى أنه ليس من جنسها واجب، ولا فرض وفيه أن تكبير التشريق واجب على المفتى به وكذا تكبيرة الإحرام، وتكبيرات العيدين فينبغي صحة النذر به بناء على أن المراد بالواجب هو المصطلح ط.
قلت: لكن ما ذكره الشارح ليس عبارة القنية وعبارتها كما في البحر، ولو نذر أن يقول دعاء كذا في دبر كل صلاة عشر مرات لم يصح (قوله: لم يلزمه) وكذا لو نذر قراءة القرآن وعلله القهستاني في باب الاعتكاف بأنها للصلاة وفي الخانية ولو قال: علي الطواف بالبيت والسعي بين الصفا والمروة أو علي أن أقرأ القرآن إن فعلت كذا لا يلزمه شيء. اهـ.
قلت: وهو مشكل فإن القراءة عبادة مقصودة ومن جنسها واجب، وكذا الطواف فإنه عبادة مقصودة أيضا ثم رأيت في لباب المناسك قال في باب أنواع الأطوفة: الخامس طواف النذر وهو واجب و لايختص بوقت فهذا صريح في صحة النذر به (قوله: لزمه) لأن من جنسه فرضًا و هو الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم مرةً واحدةً في العمر وتجب كلما ذكر وإنما هي فرض عملي قال ح: ومنه يعلم أنه لايشترط كون الفرض قطعيًّا ط (قوله: و قيل: لا) لعل وجهه اشتراطه كونه في الفرض قطعيًّا ح."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں