بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی پر غیرت کرتے ہوئے بیوی اور والدہ کو قتل کیا


سوال

ایک شخص مسمّٰی  ۔۔۔ بن  ۔۔۔ نے غیرت کے نام پر   اپنی بیوی کو قتل کرتے ہوئے اپنی والدہ کو بھی قتل کیا ہے،  (اپنی بیوی کو قتل کر رہا تھا، لیکن وہ ڈر کے مارے والدہ کے ساتھ چمٹ گئی تھی بالآخر  اس شخص نے مجبور ہوکر پہلی گولی چلائی جو والدہ کے سینہ میں لگی اور والدہ شہید ہوگئی ہے۔  اب سوال یہ کہ  اس شخص کو اپنی والدہ کی میراث میں سے حق وراثت ملے گا یا نہیں  ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  مذکورہ  قاتل  اپنی  والدہ  کا وارث نہیں ہے؛ کیوں کہ قتل کرنے  والا اپنے مورث کی وراثت سے محروم ہوجاتا ہے۔

ملحوظ رہے کہ غیرت کے نام پر قتل کا جو طریقہ رائج ہے شریعت اس کی قطعًا اجازت  نہیں دیتی، اگر کسی سے  زنا یا اس کے مقدمات میں سے کوئی جرم سرزد ہوجائے تو شریعتِ مقدسہ میں اس حوالے سے واضح اَحکام موجود ہیں، جرم کے اِثبات کا طریقہ اور اس کی سزائیں بھی متعین ہیں۔  گناہ کے وقوعہ کے بعد کسی شخص کو اَز خود سزا نافذ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، پھر اگر جرم ثابت نہ ہو، یا جرم اس نوعیت کا نہ ہو جتنی سزا دی جائے تو یہ بجائے خود گناہ اور جرم ہے؛ لہٰذا مذکورہ شخص کا غیرت میں آکر بیوی کو قتل کرتے ہوئے اپنی ماں کو قتل کردینا بہت بڑا گناہ ہے، اس شخص کو سچی توبہ کے ساتھ ساتھ ساری زندگی استغفار کرنا چاہیے اور وقتًا فوقتًا صدقہ بھی دیتا رہے اور والدہ کے لیے ایصالِ ثواب بھی کرتا رہے، قیامت کے دن معاملات میں سے سب سے پہلے خونِ ناحق کا انصاف لیا جائے گا، پھر مظلومہ بھی کسی کی والدہ ہوتو گناہ  کی سختی کا اندازا کیا جاسکتاہے، اس لیے استغفار اور دعاؤں کا اہتمام رکھے کہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس کی والدہ کو اس سے راضی کردے۔ نیز اس شخص کا بیوی کو غیرت کے نام پر قتل کرنا بھی جائز نہیں تھا، اس پر  بھی توبہ و استغفار کرنا لازم ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 766):

"(وموانعه) ... (والقتل) الموجب للقود أو الكفارة."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5 / 2173):

"(وعن جابر بن عتيك) : بفتح العين المهملة وكسر الفوقية بعدها تحتية ساكنة. قال المؤلف: كنيته أبو عبد الله الأنصاري، شهد بدرا وجميع المشاهد بعدها. (أن نبي الله صلى الله عليه وسلم: قال: " من الغيرة ": بفتح أوله، أي على أهله (ما يحب الله) . أي: يرضاه ويستحسنه (ومنها ما يبغض الله) : أي: يكرهه ويستقبحه (فأما التي يحبها الله) : تفصيل على طريق اللف والنشر المرتب (فالغيرة في الريبة) : بالكسر أي في موضع التهمة، والشك ما تتردد فيه النفس كمظهر فائدة الغيرة وهي الرهبة والانزجار، وإن لم تكن في موقعها فتورث البغض والشنآن والفتن، وهذا معنى قوله: (وأما التي يبغضها الله في غير ريبة) : وفي نسخة من غير ريبة، بأن يقع في خاطره ظن سوء من غير أمارة كخروج من باب، أو ظهور من شباك، أو تكشف على أجنبي، أو مكالمة معه من غير ضرورة."

فيض القدير (4 / 408):

"وهذا الحديث ضابط الغيرة التي يلام صاحبها والتي لا يلام فيها قال: وهذا التفصيل يتمحض في حق الرجل لضرورة امتناع اجتماع زوجين لامرأة لطريق الحل وأما المرأة فحيث غارت من زوجها في ارتكاب محرم كزنا أو نقص حق وجور عليها لضرة وتحققت ذلك أو ظهرت القرائن فهي غيرة مشروعة فلو وقع ذلك بمجرد توهم عن غير ريبة فهي الغيرة في غير ريبة وأما لو كان الزوج عادلا ووفى لكل من زوجتيه حقها فالغيرة منها إن كانت لما في الطباع البشرية التي لم يسلم منها أحد من النساء فتعذر فيها ما لم يتجاوز إلى ما يحرم عليها من قول أو فعل وعليه حمل ما جاء عن السلف الصالح من النساء في ذلك كعائشة وزينب وغيرهما."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201610

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں