بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی فحش کام میں مبتلا ہو


سوال

اگر بیوی پر شک ہو اور اس کی تصدیق بھی ہو جائے تو دین کی روشنی میں شوہر کو کیا حکم ہے؟  میرا ایک سال کا بچہ ہے اور میری بیوی کی شادی سے پہلے نامحرموں کے ساتھ غیر اخلاقی تصویریں جو کہ کسی حال میں قبول نہیں ہے تو دین شوہر کو کیا حکم دیتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً  بیوی شادی کے بعد بھی کسی غیر اخلاقی/ حیا باختہ فعل میں ملوث ہے تو آپ کے لیے بیوی کو طلاق دینا جائز ہے اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے (مثلاً بچہ کی پرورش کا خیال کرتے ہوئے) آپ اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیتے تو آپ پر لازم ہے کہ اسے نصیحت کریں اور برائی سے روکتے رہیں، اگر آپ نے برائی سے روکنے کی کوشش نہیں کی تو ایسی صورت میں آپ گناہ گار ہوں گے۔

اگر شادی سے پہلے تو بیوی سے حرکات سرزد ہوئی ہوں، لیکن اب وہ توبہ تائب ہوکر اصلاح کے ساتھ زندگی گزار رہی ہو، یا گزارنا چاہتی ہو تو سائل کو چاہیے کہ اسے اصلاح کا موقع دے، تاہم نگرانی اور نظر رکھے؛ تاکہ آئندہ ایسی صورتِ حال پیش نہ آئے۔

مشکاۃ شریف کی ایک حدیث کا ترجمہ ہے:

’’ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ میری بیوی کسی چھونے والے ہاتھ کو جھٹکتی نہیں،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے طلاق دے دو، اس نے عرض کیا یہ ممکن نہیں؛ کیوں کہ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر اس کی نگہبانی کرو( تا کہ وہ بدکاری میں مبتلا نہ ہو سکے)۔  

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5 / 2171):
"وعن ابن عباس قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن لي امرأةً لاترد يد لامس، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «طلقها» قال: إني أحبها قال: «فأمسكها إذاً»".

(وعن ابن عباس قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن لي) : بفتح الياء وسكونها (امرأةً) : بالنصب على اسم إن (لاترد يد لامس) . أي: لاتمنع نفسها عمن يقصدها بفاحشة، (فقال النبي صلى الله عليه وسلم: (طلّقها): قال: إني أحبها. قال: (فأمسكها إذن): أي: فاحفظها لئلاتفعل فاحشةً، وهذا الحديث يدل على أن تطلق مثل هذه المرأة أولى، لأنه عليه الصلاة والسلام قدم الطلاق على الإمساك، فلو لم يتيسر تطليقها بأن يكون يحبها، أو يكون له منها ولد يشق مفارقة الولد الأم، أو يكون لها عليه دين لم يتيسر له قضاؤه، فحينئذ يجوز أن لايطلقها، ولكن بشرط أن تمنعها عن الفاحشة، فإذا لم يمكنه أن يمنعها عن الفاحشة يعصي بترك تطليقها". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200740

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں