بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بٹ کوئن میں لگائے ہوئے پیسے واپس نکالنے کا طریقہ


سوال

 ایک شخص نے بٹ کوائن میں پیسے لگائے،  اب وہ پیسے واپس نکالنا چاہ رہا ہے تو اس کی کیا صورت ہوگی نفع نقصان کا کیا کرے گا اور اگر بیچے گا تو کس کو بیچے گا یا ساری رقم ایسی چھوڑ دے گا ؟اور اگر ساری رقم نکالے گا تو اس کاکیا کرے گا ؟ رہنمائی فرما دیں۔

جواب

’’بٹ کوائن‘‘ محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں،اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے،لہذا موجودہ  زمانے میں " کوئن" یا "ڈیجیٹل کرنسی" کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے،   اس میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔( مستفاد از تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا: 2/ 92)

بٹ کوئن وغیرہ کے مالکان چونکہ مسلمان نہیں اس لیے ساری رقم نکال لے اور جمع شدہ رقم نکال کر باقی رقم ثواب کی نیت کے بغیر مسلمان فقراء میں صدقہ کردیں ورنہ بٹ کوئن والے زائد رقم مسلمانوں کےخلاف استعمال کریں گے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم،» ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه."

(کتاب البیوع ج نمبر ۴ ص نمبر ۵۰۱،ایچ ایچ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں