بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بوجہ مجبوری عدت میں اسکول پڑھانا


سوال

اک لڑکی عرصہ تین سال پہلے اختلاف کی وجہ سے گھر سے نکال دی گئی تھی, اب اس کے خاوند نے اسے طلاق نامہ بھیجا ہے, اب وہ لڑکی اک سکول میں ٹیچر ہے, کیا عدت کی مدت پوری کرنے کے لیے اسے نوکری چھوڑنا پڑے گی؟ اور وہ ٹیچر بھی گرلز سکول میں ہے، کیا وہ پردہ میں رہ کر عدت پوری کرسکتی ہے؟

جواب

اگر شوہر اپنی سابقہ بیوی کو عدت کے دوران خرچہ نہیں دے رہا اور خرچے کا کوئی بندوبست بھی نہیں تو وہ نوکری نہ چھوڑے، عدت کے دوران اسکول پڑھانے کی گنجائش ہے، دن ہی دن میں واپس آنا ضروری ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 536):
"قال في الفتح: والحاصل أن مدار حل خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره، فمتى انقضت حاجتها لايحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها. اهـ. وبهذا اندفع قول البحر إن الظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا ولو كان عندها نفقة، وإلا لقالوا: لاتخرج المعتدة عن طلاق، أو موت إلا لضرورة فإن المطلقة تخرج للضرورة ليلا، أو نهارًا اهـ.
ووجه الدفع أن معتدة الموت لما كانت في العادة محتاجة إلى الخروج لأجل أن تكتسب للنفقة قالوا: إنها تخرج في النهار وبعض الليل، بخلاف المطلقة. وأما الخروج للضرورة فلا فرق فيه بينهما كما نصوا عليه فيما يأتي، فالمراد به هنا غير الضرورة، ولهذا بعدما أطلق في كافي الحاكم منع خروج المطلقة قال: والمتوفى عنها زوجها تخرج بالنهار لحاجتها ولا تبيت في غير منزلها، فهذا صريح في الفرق بينهما، نعم عبارة المتون يوهم ظاهرها ما قاله في البحر، فلو قيدوا خروجها بالحاجة كما فعل في الكافي لكان أظهر".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200161

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں