بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بشریت انبیاء علیہم السلام


سوال

 آپ کا رسالہ بینات شاید پچھلے سال یعنی ۱۹۸۰ئئکا ہے اس کا مطالعہ کیا جس میں چند جگہ کچھ اس قسم کی باتیں دیکھنے میں آئیں کہ جن کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ میں نے اوردیگر حضرات کی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا ہے جس سے آپ کی بات اوران حضرات کی بات میں بڑا فرق ہے یا تو آپ ان کے خلاف ہیں ؟ یا ان کی تحریروں کو نظر انداز کررہے ہیں ۔ مثلا: نمبر۱،ص۳۵: آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی ذات کے لحاظ سے نہ صرف نوع بشر میں داخل ہیں ،افضل البشر ہیں ،نوع انسان کے سردار ہیں۔ آدم کی نسل سے ہیں ،بشر اور انسان دونوں ہم معنی لفظ ہیں ۔ لیکن جب میں دوسرے حضرات کی تصنیف کو سامنے رکھتا ہوں تو زمین آسمان کافرق محسوس ہوتا ہے آخر اس کی کیا وجہ ،حالانکہ شاہ ولی الله صاحب محدث دہلوی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ: اصل عبارت امت نے اتفاق کیا ہے کہ وہ معرفتِ شریعت میں سلف پر اعتماد کریں گے ،چنانچہ تابعین نے صحابہ پر، تبع تابعین نے تابعین اور اسی طرح ہر طبقہ کے علماء نے اپنے سے پہلوں پر اعتماد کیا ہے۔۱ امید ہیکہ اگر دین کا سمجھ دار طبقہ یا کم از کم جو حضرات تبلیغ دین میں قدم رکھتے ہیں وہ تو اس طریقہ کو اختیار کریں تاکہ دین میں تواتر قائم رہے اب مندرجہ بالا مسئلہ میں آپ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضورصلی الله علیہ وسلم صرف بشر ہیں مگر افضل ہیں انسانوں کے سردار اور آدم  کی نسل میں سے ہیں یعنی حضورصلی الله علیہ وسلم کی حقیقت بشر ہے ۔ مگر حکیم الامت جناب مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنی تصنیف نشرالطیب فی ذکر النبی الحبیب میں پہلا باب ہی نور محمدی صلی الله علیہ وسلم پر لکھا ہے جس میں حضورصلی الله علیہ وسلم کی پیدائش الله تعالیٰ کے نور سے اور حضورصلی الله علیہ وسلم کے نور سے ساری کائنات کی پیدائش کا اظہار کیا ہے اور اس ضمن میں چند احادیث بھی روایت کی ہیں جن میں یہ ذکر بھی ہے کہ حضورصلی الله علیہ وسلم آدم علیہ السلام کے پیدا ہونے سے چودہ ہزار برس پہلے اپنے رب کے پاس نور تھے ۔اور یہ بھی ہے کہ میں اس وقت نبی تھا جبکہ آدم  ابھی پانی اور مٹی کے درمیان تھے ۔۲ اور جناب رشید احمد گنگوہی فرماتے ہیں امدادلسلوک میں : اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سایہ نہ رکھتے تھے اور ظاہر ہے کہ نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں ۔۳ حضرت مجدد الف ثانی  نے دفتر سوم مکتوب نمبر ۱۰۰میںفرمایا جس سے چند باتوں کا اظہار ہوتا ہے : ۱: حضورصلی الله علیہ وسلم ایک نور ہیں کیونکہ حضورصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : خلقت من نور الله،میں الله کے نور سے پیدا ہواہوں ۔ ۲: آپ نور ہیں اور آپ کا سایہ نہ تھا۔ ۳: آپ نور ہیں جس کو الله تعالیٰ نے حکمت و مصلحت کے پیش نظر بصورت انسان ظہور فرمایا ۔۴ مطلب یہ کہ مجدد صاحب بھی آپ کی حقیقت کو نور ہی مانتے ہیں لیکن قدرت خداوندی نے مصلحت کے تحت شکل انسانی میں ظہور کیا۔ رسالہ التوسلجو مولوی مشتاق احمد صاحب دیوبندی کی تصنیف ہے اور مولوی محمودالحسن صاحب ، مفتی کفایت الله صاحب ،اور مفتی محمد شفیع صاحب علماء دیوبند کی تصدیقات سے موٴیّد ہے ،اس میں لکھا ہے کہ : قد جاء کم من الله نور وکتاب مبین ،میں نور سے مرادد حضرت رسول اکرم ا ہیں اور کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔نور اور سراج منیر کا اطلاق حضور اکی ذات پر اسی وجہ سے ہے کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نور مجسم اور روشن چراغ ہیں۔ نور اور چراغ ہمیشہ ذریعہ وسیلہ صراط مستقیم کے دیکھنے اور خوفناک طریق سے حالت حیات میں بھی وسیلہ ہے اور بعد وفات بھی وسیلہ ہیں بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے آپ کے جد امجد عبد المطلب کو قریش مصیبت کے وقت اسی نور کے سبب حل مشکلات کا وسیلہ بنایا کرتے تھے التوسل ص۲۲۵ تفسیر کبیرمیں ہے:

جواب

حکیم الامت شاہ ولی الله محدث دہلوی قدس سرہ کے حوالے سے آپ نے جو اصول نقل کیا ہے کہ شریعت کی معرفت میں سلف پر اعتماد کیا جائے یہ بالکل صحیح ہے لیکن آنجناب کا یہ خیال صحیح نہیں کہ راقم الحروف نے نور وبشر کی بحث میں اس اصول سے انحراف کیا ہے میں نے جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بیک وقت نور بھی ہیں اور بشر بھی ،اور یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے نور اوربشرہونے میں کوئی منافات نہیں کہ ایک کا اثبات کرکے دوسرے کی نفی کی جائے ۔بلکہ آپ صفت ہدایت اور نورانیت باطن کے اعتبار سے نور مجسم ہیں اور اپنی نوع کے اعتبار سے خالص اور کامل بشرہیں ۔ بشر اور انسان ہونا کوئی عار اور عیب کی چیز نہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی طرف اس کا انتساب خدانخواستہ معیوب سمجھا جائے ،انسانیت وبشریت کو خداتعالیٰ نے چونکہ احسن تقویمفرمایا ہے اس لئے بشریت آپ صلی الله علیہ وسلم کے لئے کمال شرف ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا انسان ہونا انسانیت کے لئے موجب صد عزت وافتخار ہے۔ میرے علم میں نہیں کہ حضرات سلف صالحین میں سے کسی نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی بشریت کاانکار کرکے آپ کو دائرہ انسانیت سے خارج کیا ہو ،بلاشبہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اپنی بشریت میں بھی منفرد ہیں اور شرف ومنزلت کے اعتبار سے تمام کائنات سے بالاتر اور بعد ازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر کے مصداق ہیں اس لئے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا اکمل البشر ،افضل البشر اور سید البشر ہونا ہر شک وشبہ سے بالاتر ہے کیوں نہ ہو جب کہ خود فرماتے ہیں: انا سید ولد اٰدم یوم القیمة ولافخر۷ میں اولاد آدم کا سردار ہوں گاقیامت کے دن اور یہ بات بطور فخر نہیں کہتا۔ قرآن کریم نے اگر ایک جگہ ﴿قد جاء کم من الله نور وکتاب مبین﴾فرمایا ہے اگر نور سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی مرادلی جائےتو دوسری جگہ یہ بھی فرمایا ہے: قل سبحان ربی ھل کنت الا بشراً رسولاً۔ الاسراء:۹۳ آپ فرمادیجئے کہ سبحان اللهمیں بجز اس کے کہ آدمی ہوں مگر پیغمبر ہوں اورکیا ہوں۔ قل انما انا بشر مثلکم یوحی إلیّ انما الھکم الہ واحد الکھف:۱۱ آپ کہدیجئے کہ میں تو تم ہی جیسا بشر ہوں میرے پاس بس یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد ،افائن مت فھم الخالدون الانبیاء: ۳۴ اور ہم نے آپصلی الله علیہ وسلم سے پہلے بھی کسی بھی بشر کے لئے ہمیشہ رہنا تجویز نہیں کیا ۔پھر اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کا انتقال ہوجائے تو کیا یہ لوگ دنیا میں ہمیشہ کو رہیں گے ؟۔ قرآن کریم یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوةوالسلام ہمیشہ نوع بشر ہی سے بھیجے گئے: وماکان لبشر ان یوٴتیہ الله الکتاب والحکمة والنبوة ثم یقول للناس کونوا عباداً لی من دون الله آل عمران:۷۹ اور کسی بشر سے یہ بات نہیں ہوسکتی کہ الله تعالی اس کو کتاب اور فہم اور نبوت عطا فرمادے پھر وہ لوگوں سے کہنے لگے کہ میرے بندے بن جاؤ خداتعالی کو چھوڑ کر۔ وماکان لبشر ان یکلمہ الله الا وحیا او من وراء حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ مایشاء الشوری:۵۱ اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ الله تعالی اس سے کلام فرماوے مگر تین طریق سے یاتو الہام سے ،یا حجاب کے باہر سے یا کسی فرشتے کو بھیج دے کہ وہ خدا کے حکم سے جو خدا کومنظور ہوتا ہے پیغام پہنچادیتا ہے ۔ اور انبیاء کرام علیہم الصلوةوالسلام سے یہ اعلان بھی کرایاگیا ہے۔ قالت لھم رسلھم ان نحن الا بشر مثلکم ولکن الله یمن علی من یشاء من عبادہ۔ ابراھیم:۱۱ ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ ہم بھی تمہارے جیسے آدمی ہیں ۔لیکن الله اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے احسان فرمادے۔ قرآن کریم نے یہ بھی بتایا کہ بشر کی تحقیر سب سے پہلے ابلیس نے کی اور بشر اول حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا : قال لم اکن لاسجد لبشر خلقتہ من صلصا ل من حماٍ مسنون الحجر:۳۳ کہنے لگا میں ایسا نہیں کہ بشر کو سجدہ کروں جس کو آپ نے بجتی ہوئی مٹی سے جو سڑے ہوئے گارے سے بنی ہے پید ا کیا ہے ۔ قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ کفار نے ہمیشہ انبیاء کرام علیہم الصلوةوالسلام کی اتباع سے یہ کہکر انکار کیا کہ یہ تو بشر ہیں ،کیا ہم بشر کورسول مان لیں؟ فقالواابشراً منا واحدا نتبعہ انا اذالفی ضلال وسعر القمر:۲۴ پس کہا:کیاہم اپنے میں سے ایک آدمی کے کہنے پرچلیں تب توہم ضرورگمراہی اوردیوانگی میں جاپڑیں گے ۔ ترجمہ حضرت لاہوری وما منع الناس ان یوٴ منوا اذجاء ھم الھدی الا ان قالوا ابعث الله بشر ارسولا قل لو کان فی الارض ملائکة یمشون مطمئنین لنزلنا علیھم من السماء ملکا رسولا۔ بنی اسرائیل:۹۴۹۵ اور جس وقت ان لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکی اس وقت ان کوایمان لانے سے بجز اس کے اور کوئی بات مانع نہ ہوئی کہ انہوں نے کہا کیا الله تعالی نے بشر کورسول بناکر بھیجا ہے؟آپ فرمادیجئے اگر زمین پر فرشتے رہتے ہوتے کہ اس پر چلتے بستے تو البتہ ہم ان پر آسمان سے فرشتے کو رسول بناکر بھیجتے ۔ ان ارشادات سے واضح ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوةوالسلام انسان اور بشر ہی ہوتے ہیں ،گویا کسی نبی کی نبوت پر ایمان لانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ان کو بشر اور رسول تسلیم کیاجائے اسی لئے تمام اہل سنت کے ہاں رسول کی تعریف یہ کی گئی ہے: والرسولانسان بعثہ الله تعالیٰ الی الخلق لتبلیغ الأحکام ۸ رسول وہ انسان ہے جس کو الله تعالی اپنے پیغامات اور احکام بندوں تک پہنچانے کے لئے مبعوث فرماتے ہیں ۔ جس طرح قرآن کریم نے انبیاء کرام علیہم الصلوةوالسلام کی بشریت کا اعلان فرمایا ہے اسی طرح احادیث طیبہ میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے بھی بغیر کسی دغدغہ کے اپنی بشریت کا اعلان فرمایا ہے چنانچہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم جہاں یہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے میرا نور تخلیق کیا گیا اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کرلیا جائے وہاں یہ بھی فرماتے ہیں : ۱: اللّٰھم إنما أنا بشر فأی المسلمین لعنتہ أو سببتُہ فاجعلہ لہ زکوة وأجراً ۹ اے الله میں بھی ایک انسان ہی ہوں پس جس مسلمان پر میں نے لعنت کی ہو یا اسے برا بھلا کہا ہوآپ اس کو اس شخص کے لئے پاکیزگی اور اجر کا ذریعہ بنادے ۔ ۲: عن ابي ہریرة رضی اللّٰہ عنہ أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:اللّٰھم إنی أتخذعندک عھدا لن تخلفنیہ فإنما أنا بشر فأی الموٴمنین اٰذیتہ، شتمتہ، لعنتہ،جلدتہ فاجعلھا لہ صلوٰة وزکوة وقربةتقربہ بھا إلیک ۱۰ اے اللهمیں آپ کے یہاں سے ایک عہد لینا چاہتا ہوں آپ اس کے خلاف نہ کیجئے کیونکہ میں بھی ایک انسان ہوں پس جس مومن کو میں نے ایذاء دی ہو، گالی دی ہو ،لعنت کی ہو ،اس کو ماراہو،آپ اس کے لئے اس کو رحمت ،پاکیزگی بنادیجئے کہ آپ اس کی وجہ سے اس کو اپنا قرب عطافرمائیں۔ ۳: اللّٰھم إنما محمدصلی الله علیہ وسلم بشر یغضب کما یغضب البشر، الحدیث۱۱ اے الله محمد صلی الله علیہ وسلم بھی ایک انسان ہی ہیں ان کو بھی غصہ آتا ہے جس طرح اور انسانوں کو غصہ آتا ہے ۔ ۴: انی اشترطت علی ربی ،فقلتإنماأنا بشر أرضی کما یرضی البشر واغضب کما یغضب البشر۱۲ میں نے اپنے رب سے ایک شرط کرلی ہے میں نے کہا کہ میں بھی ایک انسان ہی ہوں میں بھی خوش ہوتا ہوں جس طرح انسان خوش ہوتے ہیں اور غصہ ہوتا ہوں جس طرح دوسرے انسان غصہ ہوتے ہیں ۔ ۵: انما أنا بشر وأنہ یأتینی الخصم فلعلبعضکم أن یکون أبلغ من بعض فأحسب أنہ قدصدق وأقضی لہ بذالک فمن قضیت لہ بحق مسلم فانما ھی قطعة من النارفلیأخذھا او فلیترکھا۔۱۳ میں بھی ایک آدمی ہوں اور میرے پاس مقدمہ کے فریق آتے ہیں،ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض زیادہ زبان آور ہوں پس میں اس کو سچا سمجھ کر اس کے حق میں فیصلہ کردوں ،پس جس کے لئے میں کسی مسلمان کے حق کافیصلہ کردوں وہ محض آگ کا ٹکڑا ہے اب چاہے وہ اسے اٹھالے جائے ،اور چاہے چھوڑ جائے ۔ ۶: انما أنا بشر مثلکم أنسی کما تنسون فاذا نسیت فذکرونی ۱۴ میں بھی تم جیسا انسان ہی ہوں میں بھی بھول جاتا ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو پس جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلادیا کرو۔ ۷: انما أنا بشر ،إذا أمرتکم بشیءٍ من دینکم فخذوا بہ وإذا امرتکم بشیءٍ من رأیی فانما أنا بشر۱۵ میں بھی ایک انسان ہی ہوں جب تم کو دین کی کسی بات کا حکم کروں تو اسے لے لو اور جب تم کو کسی دنیوی معاملے میں اپنی رائے سے بطور مشورہ کوئی حکم دوں تو میں بھی ایک انسان ہی ہوں ۔ ۸: ألاأیھا الناس فانما أنا بشر یوشک أن یأتی رسول ربی فأجیب hellip،الخ۱۶ سنواے لوگوپس میں بھی ایک انسان ہی ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا قاصدیہاں سے کوچ کا پیغام لے کر آئے تو میں اس کو لبیک کہوں ۔ قرآن کریم اور ارشادات نبوی صلی الله علیہ وسلم سے واضح ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے صفت نور کے ساتھ موصوف ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بشریت کی نفی کردی جائے ، نہ ان نصوص قطعیہ کے ہوتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم کی بشریت کا انکار ممکن ہے ۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ بشریت کوئی عار اور عیب کی چیز نہیں جس کی نسبت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی جانب کرنا سوء ادب کا موجب ہو ،بشر اور انسان تو اشرف المخلوقات ہے اس لئے بشریت آپ کا کمال ہے، نقص نہیں اور پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کا اشرف المخلوقات میں سب سے اشرف افضل ہونا خود انسانیت کے لئے مایہٴ فخر ہے ۔ اس لئے آپ کا بشر ،انسان اور آدمی ہونا نہ صرف آپ صلی الله علیہ وسلم کے لئے طرہٴ افتخار ہے بلکہ آپ کے بشر ہونے سے انسانیت وبشریت رشک ملائکہ ہے ۔۱۷ یہی عقیدہ اکابر اور سلف صالحین کاتھا چنانچہ قاضی عیاض  الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی الله علیہ وسلم میں لکھتے ہیں۔ قد قدمنا انہ صلی الله علیہ وسلم وسائرالانبیاء والرسل من البشر ،وان جسمہ وظاہر ہ خالص للبشر یجوز علیہ من الاٰفات والتغیرات والاٰلام والاسقام وتجرع کأس الحمام ما یجوز علی البشر وھذا کلہ لیس بنقیصة ،لان الشئی انما یسمی ناقصا بالاضافة الی ماھو اتم منہ واکمل من نوعہ وقد کتب الله تعالی علی اھل ھذہالدار فیھا یحیون وفیھا یموتون ومنھا یخرجون وخلق جمیع البشر بمدرجة الغیر۔۱۸ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اور دیگر انبیاء ورسل نوع بشر میں سے ہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا جسم مبارک اور ظاہر خالص بشر کاتھا آپ صلی الله علیہ وسلم کے جسم اطہر پر وہ تمام آفات وتغیرات اور تکالیف وامراض اور موت کے احوال طاری ہو سکتے تھے جو انسان پر طاری ہوتے ہیں اور یہ تمام امور کوئی نقص اور عیب نہیں ،کیونکہ کوئی چیز ناقص اس وقت کہلاتی ہے جبکہ اس کی نوع میں سے کوئی دوسری چیز اتم واکمل ہو، داردنیا کے رہنے والوں پر الله تعالی نے یہ بات مقدر فرمادی کہ وہ زمین میں جئیں گے یہیں مریں گے اور یہیں سے نکالے جائیں گے اور تمام انسانوں کو الله تعالی نے تغیر کا محل بنایا ہے ۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تکالیف کی چند مثالیں پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں : وھکذا سائر أنبیائہ مبتلی ومعافی،وذلک من تمام حکمتہ لیظھر شرفھم فی ھذہ المقامات ،وبین أمرھم ویتم کلمتہ فیھم ولیحقق بامتحانھم بشریتھم ،ویرتفع الالتباس من اھل الضعف فیھم لئلا یضلوا بما یظھر من العجائب علی ایدیھم ضلال النصاری بعیسی بن مریمhelliphellipقال بعض المحققین وھذہ الطواری والتغیرات المذکورة انما تختص باجسامھم البشریة المقصودة منھا مقاومة البشر ومعافات بنی ادم ، لمشاکلةالجنس ،وامابواطنھم فمنزّھَة غالبا عن ذلک معصومة منہ ،متعلقة بالملأ الاعلی والملئکة لاخذ ھا عنھم وتلقیھا الوحی عنھم ۲۰ اسی طرح دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوةوالسلام کہ وہ تکالیف میں بھی مبتلاء ہوئے اور ان کو عافیت سے بھی نوازا گیا اور یہ حق تعالیٰ کی کمال حکمت تھی تاکہ ان مقامات میں ان حضرات کا شرف ظاہر ہو اور ان کا معاملہ واضح ہوجائے اور الله تعالیٰ کی بات ان کے حق میں پوری ہوجائے اور تاکہ الله تعالیٰ ان کی بشریت کو ثابت کردے ،اور امت کے اہل ضعف کو ان کے بارے میں جو التباس ہوسکتا تھا وہ اٹھ جائے تاکہ ان عجائبات کی وجہ سے جو ان حضرات کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں گمراہ نہ ہوجائیں جس طرح نصاری حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں گمراہ ہوئے۔ بعض محققین نے فرمایا ہے کہ یہ عوارض اور تغیرات مذکور ہ ان بشری اجسام کے ساتھ مخصوص ہیں جن سے مقصود بشر کی مقاومت اور بنی آدم کی مشقتوں کا برداشت کرنا ہے تاکہ ہم جنسوں کے ساتھ مشاکلت ہو لیکن ان کی ارواح طیبہ ان امور سے متاثر نہیں ہوتیں بلکہ وہ معصوم ومنزہ اور ملأ اعلی اور فرشتوں سے تعلق رکھتی ہیں کیونکہ وہ فرشتوں سے علوم اخذ کرتی ہیں اور ان سے وحی کی تلقی کرتی ہیں ۔ الغرض آپ صلی الله علیہ وسلم کے نور ہونے کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم بنی نوع انسان میں داخل نہیں ۔آپ نے جو حوالے نقل کئے ہیں ان میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے لئے نور کی صفت کااثبات کیاگیا ہے ،مگر اس سے چونکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی بشریت کا انکار لازم نہیں آتا اس لئے وہ میرے مدعا کے خلاف نہیں اور نہ میرا عقیدہ ان بزرگوں سے الگ ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی  نے نشر الطیب میں سب سے پہلے نور محمدی علی صاحبہ الصلوات والتسلیماتکی تخلیق کا بیان فرمایا ہے اور اس کے ذیل میں وہ احادیث نقل کی ہیں جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے لیکن حضرت  نے نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح بھی فرمادی ہے،چنانچہ پہلی روایت حضرت جابررضی الله عنہ کیمسند عبد الرزاقکے حوالے سے یہ نقل کی ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔اے جابر الله تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نورسے نہ بایں معنی کہ نورالٰہی اس کا مادہ تھابلکہ اپنے نورکے فیض سے پیدا کیا، پھر جب الله تعالیٰ نے اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے کئے ایک حصہ سے قلم پیداکیا ،دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش۔ آگے حدیث طویل ہے۔ اس کے فائدہ میں لکھتے ہیں : اس حدیث سے نور محمدی صلی الله علیہ وسلم کا اول الخلق ہونا باولیت حقیقیہ ثابت ہوا کیونکہ جن جن اشیاء کی نسبت روایات میں اولیت کاحکم آیا ہے ان اشیاء کانور محمدی صلی الله علیہ وسلم سے متأ خر ہونا اس حدیث میں منصوص ہے ۔ اور اس کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں : ظاہراً نور محمدی ،روح محمدی سے عبارت ہے اور حقیقت روح کی اکثر محققین کے قول پر مادہ سے مجرد ہے اور مجرد کا مادیات کے لئے مادہ ہونا ممکن نہیں پس ظاہراً اس نور کے فیض سے کوئی مادہ بنایاگیا اور اس مادہ سے چا رحصے کئے گئے الخ،اور اس مادہ سے پھر کسی مجرد کا بننا اس طرح ممکن ہے کہ وہ مادہ اس کا جزء نہ ہو ،بلکہ کسی طریق سے محض اس کا سبب خارج عن الذات ہو۔ دوسری روایت جس میں فرمایاگیا ہے کہ بے شک میں حق تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین ہوچکا تھا اور آدم علیہ السلام ہنوز اپنے خمیر ہی میں پڑے تھے۔ اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: اور اس وقت ظاہر ہے آپ صلی الله علیہ وسلم کا بدن تو بنا ہی نہ تھا تو پھر نبوت کی صفت آپ کی روح کو عطا ہوئی تھی اور نور محمدی اسی روحمحمدی کا نام ہے ،جیسا وپر مذکور ہوا۔۲۱ اس سے واضح ہے کہ حضرت تھانوی  کے نزدیک نور محمدی صلی الله علیہ وسلم سے مراد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی پاک اور مقدس روح ہے اور اس فصل میں جتنے احکام ثابت کئے گئے ہیں وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی روح مقدسہ کے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ کی پاک روح کے اول الخلق ہونے سے آپ کی بشریت کا انکارلازم نہیں آتا ،اور حضرت تھانوی  کی تشریح سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے نور کے خدا تعالیٰ کے نور سے پیدا کئے جانے کایہ مطلب نہیں کہ نور محمدی صلی الله علیہ وسلم نعوذبالله نور خدا وندی کا کوئی حصہ ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ نور خدا وندی کا فیضان آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی روح مقدسہ کی تخلیق کا باعث ہوا۔ آپ نے قطب العالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی  کیامداد السلوککا حوالہ دیا ہے کہ احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سایہ نہیں رکھتے تھے اور ظاہر ہے کہ نور کے سواتمام اجسام سایہ رکھتے ہیں۔ امدادالسلوک کا فارسی نسخہ تو میرے سامنے نہیں البتہ اس کا اردو ترجمہ جو حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھی نے ارشادالملوک کے نام سے کیا ہے اس کی متعلقہ عبارت یہ ہے : آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بھی اولاد آدم ہی میں ہیں مگر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ذات کو اتنا مطہر بنالیاتھا کہ نور خالص بن گئے اور حق تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو نور فرمایا اور شہرت سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کاسایہ نہ تھا اور ظاہر ہے کہ نور کے علاوہ ہر جسم کے سایہ ضرور ہوتا ہے ۔ اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے متبعین کو اس قدر تزکیہ اور تصفیہ بخشا کہ وہ بھی نور بن گئے چنانچہ ان کی کرامات وغیرہ کی حکایتوں سے کتابیں پر اور اتنی مشہور ہیں کہ نقل کی حاجت نہیں نیز حق تعالیٰ نے فرمایاہے کہ جو لوگ ہمارے حبیب صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لائے ان کا نور ان کے آگے آگے دوڑتا ہوگا اور دوسری جگہ فرمایا ہے کہ یاد کرو اس دن کو جب کہ مومنین کانور ان کے آگے اور دا ہنی طرف دوڑتا ہوگا اور منافقین کہیں گے کہ ذرا ٹھہرجاؤ تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ اخذ کریں ان دونوں آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت صلی الله علیہ وسلم کی متابعت سے ایمان اور نور دونوں حاصل ہوتے ہیں ص۱۱۴،۱۱۵۲۲ اس اقتباس سے چند امور بالکل واضح ہیں: اول: آنحضر ت صلی الله علیہ وسلم کا اولاد آدم علیہ السلاممیں سے ہونا تسلیم کیاگیا ہے اور آدم علیہ السلام کا بشر ہونا قرآن کریم میں منصوص ہے۔ دوم: آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے لئے جس نورانیت کااثبات کیاگیا ہے یہ وہ ہے جو تزکیہ وتصفیہ سے حاصل ہوتی ہے اور جس میں آنحضرصلی الله علیہ وسلم کامرتبہ اس قدر اکمل واعلی تھا کہ آپ نور خالص بن گئے تھے ۔ سوم : جسم اطہر کا سایہ نہ ہونے کو متواتر نہیں کہاگیا بلکہ شہرت سے ثابت ہے کہا گیا ہے بہت سی روایات ایسی ہیں کہ زبان زدعام وخاص ہوتی ہیں مگر ان کو تواتر یا اصطلاحی شہرت کامرتبہ تو کیا حاصل ہوتا خبر آحاد کے درجہ میں ان کو حدیث صحیح یا قابل قبول ضعیف کادرجہ بھی حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہ خالصةً بے اصل اور موضوع ہوتی ہیں سایہ نہ ہونے کی روایت بھی حد درجہ کمزور ہے یہ روایت مرسل بھی ہے اور ضعیف بھی اس درجہ کی کہ اس کے بعض راویوں پر وضع حدیث کی تہمت ہے اس کی تفصیل حضرت مفتی شفیع صاحبکے مضمون میں ہے جو آخر میں بطور تکملہ نقل کررہاہوں ۔ چہارم: احادیث کی تصحیح وتنقیح حضرات محدثین کا وظیفہ ہے حضرات صوفیائے کرام کا اکثر وبیشتر معمول یہ ہے کہ وہ بعض ایسی روایات جو عام طور سے مشہور ہوں ان کی تنقیح کے درپے نہیں ہوتے ،بلکہ برتقدیر صحت اس کی توجیہ کردیتے ہیں یہاں بھی شیخ قطب الدین مکی قدس سرہ نے جن کےرسالہ مکیہکا ترجمہ حضرت گنگوہی  نے کیا ہےاس مشہور روایت کی یہ توجیہ فرمائی ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ذات عالی پر نورانیت اور تصفیہ کا اس قدر غلبہ تھا کہ بطور معجزہ آپ کا سایہ نہیں تھا بہرحال اگر سایہ نہ ہونے کی روایت کو تسلیم کرلیاجائے تو یہ بطور معجزہ ہی ہوسکتا ہے گویا غلبہ نورانیت کی بناء پر آپ کے جسم اطہر پر روح کے احکام جاری ہوگئے تھے اور جس طرح روح کاسایہ نہیں ہوتا اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کے جسم اطہر کا بھی سایہ نہیں تھا لیکن اس سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی بشریت کی نفی لازم نہیں آتی ایک تو اس لئے کہ شیخ  خود آپ کی بشریت کی تصریح فرمارہے ہیں ،ظاہر ہے کہ اس نور کی بشریت سے منافات ہوتو آپ صلی الله علیہ وسلم کے تمام متبعین کی بشریت کا انکار لازم آئے گا تیسرے ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے حالات کو سب سے زیادہ جانتی ہیں وہ فرماتی ہیں، کان بشرا من البشر ۲۳ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بھی انسانوں میں سے ایک انسان تھے ۔ سایہ نہ ہونے کی روایت کے بارے میںفتاوی رشیدیہسے اصل سوال وجواب یہاں نقل کرتا ہوں: سوال:سایہ مبارک رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا پڑتا تھایانہیں اور جو ترمذی نے نوادرالاصول میں عبد الملک بن عبد الله بن وحید سے انہوں نے ذکوان سے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سایہ نہیں پڑتا تھا سند اس کی صحیح ہے یا ضعیف یا موضوع؟ ارقام فرمادیں ۔ جواب: یہ روایت کتب صحاح میں نہیں اور نوادر کی روایت کا بندہ کو حال معلوم نہیں کہ کیسی ہے۔نوادر الاصول حکیم ترمذی کی ہے نہ ابو عیسی ترمذی کی فقط والله اعلم۔رشید احمد گنگوہی ۲۴ اس اقتباس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ سایہ نہ ہو نے کی روایت حدیث کی متداول کتابوں میں نہیں۔ امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ کے حوالے سے آپ نے تین باتیں نقل کی ہیں : ۱: حضورصلی الله علیہ وسلم ایک نور ہیں کیونکہ حضورصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے ،خلقت من نور الله ،میں الله کے نور سے پیدا ہواہوں۔ ۲: آپ صلی الله علیہ وسلم نور ہیں آ پ کا سایہ نہ تھا ۔ ۳: آپ صلی الله علیہ وسلم نور ہیں جس کو الله تعالیٰ نے حکمت ومصلحت کے پیش نظر بصورت انسان ظاہر فرمایا ۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے نور سے پیدا ہونے اور سایہ نہ ہونے کی تحقیق اوپر عرض کرچکاہوں البتہ یہاں اتنی بات مزید عرض کردینا مناسب ہے کہ خلقت من نور الله کے الفاظ سے کوئی حدیث مروی نہیں ،مکتوبات شریفہ کے حاشیہ میں اس کی تخریج کرتے ہوئے شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ کی مدارج النبوةکے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے : انا من نور الله والمومنون من نوری ․ میں الله کے نور سے ہوں اور موٴمن میرے نور سے ہیں ۔ مگر ان الفاظ سے بھی کوئی حدیث ذخیرہ احادیث میں نظرسے نہیں گزری،ممکن ہے کہ یہ حضرت جابر  کی حدیث جو نشر الطیب کے حوالے سے گزرچکی ہے کی روایت بالمعنی ہو بہرحال اگر یہ روایت صحیح ہوتو اس کی شرح ہے جو حضرت حکیم الامت تھانوی  کی نشر الطیب سے نقل کر چکا ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ الله تعالیٰ کانور اجزاء وحصص سے پاک ہے اس لئے کسی عاقل کو یہ تو وہم بھی نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا نور ،نور خداوندی کا جز ء اور حصہ ہے پھر اس روایت میں اہل ایمان کی تخلیق آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے نورسے ذکر کی گئی ،اگر جزئیت کا مفہوم لیا جائے تو لازم آئیگا کہ تمام اہل ایمان نور خداوندی کا جزء ہوں اس قسم کی روایت کی عارفانہ تشریح کی جاسکتی ہے ،جیساکہ امام ربانی نے کی ہے ، مگر ان پرعقائد کی بنیاد رکھنا اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو نصوص قطعیہ کے علی الرغم نوع انسان سے خارج کردینا کسی طرح بھی جائز نہیں ۔ تیسری بات جو آپ نے حضرت مجدد سے نقل کی ہے اول تو وہ ان دقیق علوم ومعارف میں سے ہے کہ جو عقول متوسطہ سے بالاتر ہیں اور جن کا تعلق علوم مکاشفہ سے ہے ،جوحضرات تصفیہ و تزکیہ اور نور باطن کے عالی ترین مقامات پر فائز ہوں وہی ان کے افہام وتفہیم کی صلاحیت رکھتے ہیں ،عام لوگ ان دقیق علوم کو سمجھنے سے قاصر ہیں ان لوگوں کو اگر ظاہر شریعت سے کچھ مس ہوگا تو ان اکابر کی شان میں گستاخی کریں گے جس کا مشاہدہ اس زمانے میں خوب خوب ہورہا ہے، اور جن لوگوں کو ان اکابر سے عقیدت ہو گی وہ ظاہر شریعت اور نصوص قطعیہ کو پس پشت ڈال کر الحاد وزندقہ کی وادیوں میں بھٹکاکریں گے ،فإن الجاھل اما مفرِط واما مفرِّط،اس لئے اکابر کی وصیت یہ ہے کہ : نکتہ ہاں چوں تیغ پولاد است تیز چوں نداری تو سپر واپس گریز پیش ایں الماس بے اسپر میا گزبریدن تیغ رانبودحیا چہ شبہا نسشتم دریں سیر گم کہ دہشت گرفت آستینم کہ قم محیط است علم ملک بر بسیط قیاس تو بروے نہ گردد محیط نہ ادراک در کنہ ذاتش رسد نہ فکرت بغور صفاتش رسد دوسرے ،آپ نے حضرت مجدد  کا حوالہ نقل کرنے میں خاصے اختصار سے کام لیا ہے جس سے فہم مرادمیں التباس پیدا ہوتا ہے ،حضرت مجدد  فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تخلیق حق تعالیٰ کے علم اضافی سے ہوئی ہے ۔ ومشہورمی گردد کہ علم جملی کہ ازصفات اضافیہ گشتہ است نوریست کہ درنشأة عنصری بعد از انصبا ب از اصلاب بارحام متکثرہ بمقتضائے حِکَم ومصالح بصورت انسانی کہ احسن تقویم ست ظہور نمودہ است ومسمی بہ محمدواحمد شدہ۔۲۵ اور ایسا نظر آتا ہے کہ علم اجمالی جو کہ صفات اضافیہ میں سے ہوگیا ہے ایک نور ہے جو کہ نشأة عنصری میں بہت سی پشتوں اور رحموں میں منتقل ہو ا، حکم ومصالح کے تقاضے سے انسانی صورت میں جلوہ گر ہوا اور محمد واحمد کے پاک ناموں سے موسوم ہوا ا ۔ حضرت امام ربانی کے اقتباس سے مندرجہ ذیل امور واضح ہوئے ۔ ۱: آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تخلیق حق تعالیٰ کے علم اجمالی سے صفت اضافیہ کے مرتبہ میں ہوئی ۔ ۲: یہ صفت اضافیہ ایک نور تھا جس کو انسانی قالب عطاکیاگیا ۔ ۳: چونکہ انسانی صورت سب سے خوبصورت سانچہ ہے اسلئے حکمت خداوندی کاتقاضا ہواکہ آپ کو انسان اور بشر کی حیثیت سے پیدا کیاجائے ،اگر بشری ڈھانچے سے بہتر کوئی اور قالب ہوتا تو آنحضرت ا کو کبھی انسانی شکل میں پیدا نہ کیاجاتا ،اس سے واضح ہے کہ حضرت امام ربانی  آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی بشریت کے منکر نہیں ،اور نہ وہ نور ، بشریت کے منافی ہے جس کا وہ اثبات فرمارہے ہیں۔ آپ نےرسالہ التوسل اور تفسیر کبیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ آیت کریمہ ،قد جاء کم من الله نور وکتاب مبین،میں نورسے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی مراد ہے اس آیت میں نور کی تفسیر میں تین قول ہیں : ایک یہ کہ: اس سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مراد ہیں ۔ دوم یہ کہ : اسلام مراد ہے ۔ اور سوم یہ کہ : قرآن کریم مراد ہے، اس قول کو امام رازینے اس بناء پر کمزور کہا ہے کہ معطوفین میں تغایر ضروری ہے ،لیکن یہ دلیل بہت کمزور ہے ،بعض اوقات ایک چیز کی متعدد صفات کو بطور عطف ذکر کردیا جاتا ہے، چنانچہ حضرت حکیم الامت تھانوی نےبیان القرآنمیں اسی کو اختیار کیا ہے۔ بہرحال نور سے مراد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم ہوں یا اسلام ہو،یاقرآن کریم، بہرصورت یہاں نور سے نور ہدایت ہے، جس کا واضح قرینہ آیت کاسیاق ہے۔ یھدی بہ الله من اتبع رضوانہ سبل السلام ویخرجھم من الظلمت إلی النور بإذنہ ویھدیھم إلی صراط مستقیم المائدة : ۱۶ اس کے ذریعہ سے الله تعالیٰ ایسے شخصوں کو ،جو رضائے حق کے طالب ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں یعنی جنت میں جانے کے طریقے کہ عقائد واعمال خاصہ ہیں، تعلیم فرماتے ہیں ،کیونکہ پوری سلامتی بدنی وروحانی جنت ہی میں نصیب ہوگیاور ان کو اپنی توفیق اور فضل سےکفر ومعصیت کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان وطاعت کے نور کی طرف لے آتے ہیں اور ان کو ہمیشہ راہ راست پر قائم رکھتے ہیں بیان القرآن ۔ امام رازی فرماتے ہیں : وتسمیة محمد والاسلام والقرآن بالنور ظاہرة لان النور الظاہر ھوالذی یتقوی بہ البصر علی ادراک الاشیاء الظاہرة ،والنور الباطن ایضاً ھوالذی تتقوی بہ البصیرة علی ادراک الحقائق والمعقولات ۔۲۶ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اور اسلام اور قرآن کو نور فرمانے کی وجہ ظاہر ہے ، کیونکہ ظاہری روشنی کے ذریعہ آنکھیں ظاہری اشیاء کو دیکھ پاتی ہیں ،اسی طرح نورباطن کے ذریعہ بصیرت حقائق ومعقولات کا ادراک کرتی ہے ۔ علامہ نسفیتفسیر مدارکمیں لکھتے ہیں : أوالنور، محمد صلی الله علیہ وسلم لانہ یھتدی بہ کما یسمی سراجا۔۲۷ یانور سے مراد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم ہیں کیونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ذریعہ ہدایت ملتی ہے ،جیساکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو چراغ کہاگیا ہے ۔ قریب قریب یہی مضمون تفسیر خاز ن،تفسیربیضاوی،تفسیرصاوی،روح البیان اور دیگر تفاسیر میں ہے۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا:جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی نوع کے اعتبار سے بشر ہیں اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم صفت ہدایت کے لحاظ سے ساری انسایت کے لئے مینارہٴ نور ہیں ،یہی نور ہے جس کی روشنی میں انسانیت کو خداتعالیٰ کا راستہ مل سکتا ہے اور جس کی روشنی ابد تک درخشندہ وتابندہ رہے گی ،لہٰذا میرے عقیدے میں آپ بیک وقت نور بھی ہیں اور بشر بھی ۔میری ان تمام معروضات کاخلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی بشریت دلائل قطعیہ سے ثابت ہے اس لئے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے لئے نور کی صفت ثابت کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم کو انسانیت اور بشریت کے دائرے سے خارج کردینا ہرگز صحیح نہیں ،جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت ونبوت کا اعتقاد لازم ہے اسی طرح آپ کی انسانیت وبشریت کاعقیدہ بھی لازم ہے چنانچہ میں فتاوی عالمگیریکے حوالے سے یہ نقل کر چکاہوں : ومن قال لا ادری ان النبی صلی الله علیہ وسلم کان انسیا اوجنیا یکفر کذا فی الفصول العمادیة ۲۸ اور جو شخص یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم انسان تھے یا جن ،وہ کافر ہے ۔ والله اعلم کتبہ : محمد یوسف لدھیانوی بینات - محرم الحرام ۱۴۰۲ھ بمطابق نومبر ۱۹۸۱ء جلد:۴۰، شمارہ:۱ ص: ۲۱،-۳۹ حوالہ جات ___________________________________________________________________ ۱ عقید الجید عربی متن مع اردو ترجمہ الباب الثالث-ص۵۴-ط: محمد سعید اینڈ سنزکراچی ۲ نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب-پہلی فصل نور محمدی کے بیان میں -۱۰ تا ۱۲-ط: انتظامی کانپور․فروری ۱۹۱۵ء ۳ امداد السلوک -لم نطلع علی طبع جدید․ ۴ مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی فارسی دفترسوم - حصہ نہم -مکتوب ۱۰۰-مجلد ۲ ص ۷۵-ط: ایچ ایم سعید ۔ کراچی، ۱۳۹۲ھ وایضا المکتوبات الربانیة عربی المکتوب۵۱۲- إلی الشیخ نور الحق فی کشف سر محبة یعقوب لیوسف علیھم السلام خاتم حسنة فی بیان الحسن والجمال المحمدیین علی صاحبھما السلام - ۳۳۵۱- دار الکتب العلمیة بیروت الطبعة الأولیٰ۱۴۲۴ھبمطابق ۲۰۰۴ء ۵ لم نطلع علی اصل الرسالة ۔مرتب ۶ التفسیر الکبیر للإمام الرازی - ۳۳۸۲-ط: مطبعة خیریة ۱۳۰۸ھ․ ۷ مشکوة المصابیح -باب فضائل سید المرسلین -۵۱۱،۵۱۳-ط:قدیمی ۱۳۶۸ھ ۸ شرح العقائد النسفیة مع حاشیة الخیالی-ص۳۰-ط: مصطفی البابی الحلبی ․ ۹ الصحیح لمسلم-باب من لعنہ النبی صلی الله علیہ وسلم او سبہ :۲۳۲۳-ط:قدیمی․الطبعة الثانیہ ۱۳۷۵ھ بمطابق ۱۹۵۶ء ۱۰ المرجع السابق ا -۲۳۲۴․ ۱۱ نفس المرجع السابق․ ۱۲ المرجع السابق ․ ۱۳ صحیح البخاری - ابواب المظالم والقصاص، باب اثم من خاصم فی باطل وھو یعلمہ، -۱۳۳۲-ط: قدیمی کتب خانہ۔ الصحیح لمسلم - باب بیان ان حکم الحاکم لالغیرالباطن -۲۷۴-واللفظ لمسلم-ط:قدیمی․الطبعة الثانیہ ۱۳۷۵ھ بمطابق ۱۹۵۶ء۔ ۱۴ صحیح البخاری،کتاب الصلوة،باب التوجہ نحو القبلةحیث کان:۱۵۸،ط: قدیمی․الطبعة الثانیہ۱۳۸۱ھ بمطابق ۱۹۶۱ء۔ الصحیح لمسلم -باب سجودالسھوفی الصلوٰة-۱۲۱۲۔۲۱۳․ الطبعة الثانیہ ۱۳۸۱ھ بمطابق ۱۹۶۱ء ۱۵ الصحیح لمسلم -باب وجوب امتثال ماقالہ شرعاhellipالخ-۲-۲۶۴ ط: قدیمی، الطبعة الثانیہ ۱۳۷۵ھ بمطابق ۱۹۵۶ء۔ ۱۶ الصحیح لمسلم -باب من فضائل علی بن ابی طالب -۲۲۷۹․ط: قدیمی۔ ۱۸ اختلاف امت اور صراط مستقیم ازحضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی شہید-دیوبندی بریلوی اختلاف-نور وبشر- ۱۳۹-ط:مکتبہ لدھیانوی․ ۱۹ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی الله علیہ وسلم-للإمام القاضی عیاض -القسم الثانی فیما یخصھم فی الامورالدنیویة- ۲۱۵۸،۱۵۹․ ۲۰ المرجع السابق․ ۲۱ نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب -ص:۱۱-الفصول ،پہلی فصل، نور محمدی کے بیان میں ۔ ط:انتظامی کانپور ۱۹۱۵ء۔ ۲۲ ارشادالملوک ترجمہ امدادالسلوک ، از حضرت مولاناعاشق الہٰی میرٹھی رحمہ الله، ص۱۱۴،۱۱۵لم نطلع علیٰ اصل النسخة ۔ والله اعلم -مرتب ۲۳ مشکوة المصابیح -باب فی اخلاقہ وشمائلہ صلی الله علیہ وسلم -الفصل الثانی-ص۵۲۰․ ۲۴ فتاوی رشیدیہ -کتاب التفسیر والحدیث-ص۱۵۲-ط:محمدسعیداینڈسنزکراچی․ ۲۵ مکتوبات امام ربانی مجددالف ثانی شیخ احمد سرھندی-دفترسوم -مکتوب صدم -۳۷۵ خاتمہ حسنہ درمیان حسن وجمال-ط:ایچ ، ایم سعید کراچی، الطبعة الثانیہ ،۱۳۹۲ء۔ ۲۶ التفسیر الکبیر للامام الرازی-۱۱۱۹۰- ط: الطبعة الثالثة ایران ۔ ۲۷ تفسیر المدارک للإمام أبی البرکات النسفی المتوفیٰ ۷۱۰ھ-سورة المائدة :۱۶- ۱۴۳۶- مکتبة رحمانیہ لاھور۔ ۲۸ الفتاوی الھندیة -کتاب السیر -الباب التاسع فی احکام المرتدین -مطلب موجبات الکفر انواع -منھا مایتعلق بالانبیاء-۲۲۶۳-ط: ماجدیہ کوئٹہ ۔ الطبعة الثانیہ ۱۴۰۳ھ بمطابق ۱۹۸۳ء۔ وکذا فی البحر الرائق -لابن نجیم -باب احکام المرتدین -۵۱۲۱- ط:ایچ ایم سعید۔


فتوی نمبر : 143101200112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں