بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل محلہ کا جماعت ہوجانے کے بعد مسجد میں دوسری جماعت کرانا


سوال

ہمارے علاقے میں ایک پمپ میں مسجد ہے، جس کےامام اور مقتدی متعین ہیں، اگرچہ وہ راستے میں ہے، لیکن اگر وہاں کے لوگ یعنی علاقے والے اس میں دوسری جماعت کرتے ہیں تو کیا یہ جائز ہے علاقے والے کے لیے یا نہیں جب کہ پہلی جماعت ہوچکی ہو کبھی کبھار؟

جواب

 ایسی  مسجد جس میں  امام، مؤذن  اور نمازی معلوم ہیں، نیز  جماعت کے اوقات بھی متعین ہیں  تو ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ  محلے والوں کے   جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا مکروہِ  تحریمی ہے۔

البتہ اگر پہلی جماعت محلے کے لوگوں نے نہیں پڑھی، بلکہ دیگر مسافرین نے پڑھ لی ہو تو محلے کے لوگ اس میں دوبارہ جماعت کراسکتے ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 552):

ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

(قوله: بأذان وإقامة إلخ) عبارته في الخزائن: أجمع مما هنا ونصها: يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة  بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أولا غير أهله، لو أهله لكن بمخافتة الأذان، ولو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعا؛ كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجا فوجا، فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة كما في أمالي قاضي خان اهـ.

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144105200363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں