بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر تم نے یہ کام کیا تو تم مجھ پر حرام ہو کہنے کا حکم


سوال

اگر تم نے یہ کام کیا تو تم مجھ پر حرام ہو، لیکن میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی،  میں نے بس ایسے ہی کہا تو کیا طلاق ہو گئی؟

جواب

لفظ ’’حرام‘‘ طلاق کے بارے میں عرف کے اعتبار سے طلاق کا صریح لفظ بن چکا ہے،لہذا جس کام کے کرنے پر شوہر نے طلاق کو موقوف کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ :"اگر تم نے یہ کام کیا تو تم مجھ  پر حرام" تو بیوی جب بھی وہ کام کرے گی، اس پر ایک طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی، چاہے شوہر نے لفظ ’’حرام‘‘ کہتے وقت طلاق کی نیت کی ہو یا نہیں۔

 چوں کہ لفظِ حرام سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے؛ لہذا طلاق پڑتے ہی نکاح ٹوٹ جائے گا، اس کے بعد اگر میاں بیوی دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو نئے سرے سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنے کے بعد ساتھ رہ سکتے ہیں، اور شوہر کے پاس آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 252):

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.

 (قوله: فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحاً لا كنايةً، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق لايعرفون من صيغ الطلاق غيره ولايحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحاً كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201324

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں