بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں ذاتی مکان میں سے صرف بیٹوں کو حصے دینے کا حکم


سوال

ایک آدمی نے 80 گز کا پلاٹ لے کر گراؤمڈ پلس 3 مکان بنایا، اس آدمی کے تین بیٹے، ایک بیٹی اور ایک بیوی ہے، اس آدمی نے اپنے تینوں بیٹوں کو ایک ایک فلور رہنے کے لیے دے دیا ہے، لیکن مالک نہیں بنایا ہے، مذکورہ مکان بنانے میں بیٹوں کی محنت بھی شامل ہے، البتہ پیسے زیادہ تر باپ ہی کے لگے ہیں، اب اگر باپ اپنی زندگی میں ہر لڑکے کو اس کے فلور کا مالک بنادے یا ہر بیٹے کو اس مکان کے 25، 25 فیصد حصے کا مالک بنادے اور ایک فلور جو اس آدمی کی ملکیت میں رہے گا  اس کے انتقال کے بعد صرف اسی فلور میں وراثت تقسیم ہو  تو کیا اس آدمی کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز والد کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی  جائیداد   میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتاہے،  تاہم   اگر صاحبِ  جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی  جائیداد  خوشی  ورضا سے  اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو  جائیداد   تقسیم کی جائے  وہ میراث نہیں ہوتی، بلکہ وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ  حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»".

(مشکوٰۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیرؓ  کے بارے  منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں  رسولِ کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

 لہٰذا اگر آپ اپنی زندگی ہی میں اپنی جائے داد  اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو شرعاً اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی جائیداد  میں سے جتنی مقدار اپنے لیے  رکھنا چاہتے ہیں وہ رکھنے کے بعد اپنی جائیداد  میں سے کم از کم آٹھواں حصہ اپنی بیوی کو دینے کے بعد باقی جائیداد اپنی  تمام  اولاد (تین بیٹوں اور ایک بیٹی) میں برابر تقسیم کردیں یعنی مکان میں سے جتنا حصہ ایک بیٹے کو دیں اتنا ہی حصہ بیٹی کو بھی دیں،  نہ کسی کو محروم کریں اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کریں، ورنہ آپ نا انصافی کے مرتکب ہونے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی،البتہ اگر آپ کسی بیٹے یا بیٹی کو زیادہ دِین دار یا خدمت گزار  یا ضرورت مند ہونے  کی وجہ سے دیگر کے مقابلے میں کچھ زائد دینا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ دوسری بات یہ بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ ہبہ (گفٹ) کے شرعا معتبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جائیداد  تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصہ پر باقاعدہ ایسا قبضہ دے دیا جائے کہ اس کو اس میں تصرف کرنے کا پورا اختیار ہو، ورنہ محض نام کرنے سےشرعاً ہبہ معتبر نہیں ہوگا۔

 لہٰذا آپ کا مکان کی ایک ایک منزل یا 25، 25 فیصد حصہ صرف بیٹوں کو دینے اور بیٹی کو سرے سے محروم رکھنے کا فیصلہ نا انصافی پر مبنی ہے، آپ کو چاہیے کہ بیٹوں کو زندگی میں جائیداد سے نوازنے کی صورت میں بیٹی کو بھی جائیداد میں سے بیٹوں کے برابر حصہ دیں، البتہ بیٹوں نے اگر اس مکان کی تعمیر میں آپ کے ساتھ مالی اور جانی تعاون کیا ہے تو اس وجہ سے بیٹوں کو بیٹی کے مقابلہ میں کچھ زیادہ حصہ دینے کی گنجائش ہے، لیکن بیٹی کو سرے سے محروم رکھنے کی صورت میں آپ شرعا گناہ گار ہوں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة: أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى. وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا: يكون آثماً في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلاتنصرف  الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لايعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اهـ".

(4/444، کتاب الوقف،ط: سعید)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696):

"ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم".

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"و علی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطي من أولاده من کان متأدباً".

(ج: ۳ ؍ ۴۶۲، ط:زکریا، هند)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690):

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں