بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں قضا نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کا حکم


سوال

میری کچھ رقم کسی کے ذمے ادا کرنا باقی ہے ، اگر میں اسے قضاء نمازوں کے فدیہ ادا کرنے کی نیت سے ، اسے اپنی نیت بتائے بغیر کسی مدرسے یا ٹرسٹ ، میں دینے کا کہہ دوں، تو کیا میرا فدیہ ادا ہو جائے گا ؟

جواب

قضاءنمازوں  کا فدیہ زندگی میں ادا نہیں  کیا جاسکتااس لئے کہ زندگی میں قضاء کرنے کی طاقت ہوتی ہے اور جب تک قضاء کرنے کی طاقت ہو فدیہ کی گنجائش نہیں، لہذا زندگی میں قضا پڑھنے کے بجائے قضا نمازوں کا فدیہ دینا جائز نہیں ہے،  البتہ  انتقال کے بعد فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے  موت سے پہلے پہلے کوشش کریں کہ اپنی فوت شدہ نمازوں کی قضا پڑھ لیں، اور اگر کچھ رہ   جائے تو موت کے وقت  ان کے متعلق وصیت کر جائیں  کہ میری اتنی  نمازیں ذمہ پر باقی  ہیں ان کا فدیہ میرے ترکے میں سے دے دیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ولو فدى عن صلاته في مرضه لا يصح)، في التتارخانية عن التتمة: سئل الحسن بن علي عن الفدية عن الصلاة في مرض الموت هل تجوز؟ فقال لا.  وسئل أبو يوسف عن الشيخ الفاني:  هل تجب عليه الفدية عن الصلوات كما تجب عليه عن الصوم وهو حي؟ فقال لا. اهـ. وفي القنية: ولا فدية في الصلاة حالة الحياة بخلاف الصوم. اهـ.

أقول: ووجه ذلك أن النص إنما ورد في الشيخ الفاني أنه يفطر ويفدي في حياته، حتى إن المريض أو المسافر إذا أفطر يلزمه القضاء إذا أدرك أياما أخر، وإلا فلا شيء عليه، فإن أدرك ولم يصم يلزمه الوصية بالفدية عما قدر، هذا ما قالوه، ومقتضاه: أن غير الشيخ الفاني ليس له أن يفدي عن صومه في حياته لعدم النص، ومثله الصلاة. ولعل وجهه أنه مطالب بالقضاء إذا قدر، ولا فدية عليه إلا بتحقيق العجز عنه بالموت فيوصي بها، بخلاف الشيخ الفاني؛ فإنه تحقق عجزه قبل الموت عن أداء الصوم وقضائه فيفدي في حياته، ولا يتحقق عجزه عن الصلاة؛ لأنه يصلي بما قدر ولو موميا برأسه فإن عجز عن ذلك سقطت عنه إذا كثرت، ولا يلزمه قضاؤها إذا قدر كما سيأتي في باب صلاة المريض، وبما قررنا ظهر أن قول الشارح بخلاف الصوم أي فإن له أن يفدي عنه في حياته خاص بالشيخ الفاني، تأمل."

( كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت ،2/ 74، ط. سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144504100995

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں