بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں کسی اولاد کو کم او کسی کو زیادہ دینا


سوال

والد ا پنی زندگی میں اپنے ایک بیٹے یا ایک بیٹی کو گاڑی یا گھر زیادہ مالیت کا دیتا ہے اور باقی بچوں کو کم مالیت کا، تو اس طریقے سے دینا صحیح ہوتا ہے یا برابر کا دینا چاہیے؟ اس میں پسند اور ناپسند کے بچوں کا معاملہ بھی ہوتا ہے؟ اس میں کوئی بچہ نافرمان نہیں ہے،  ہر بچہ ان کی بات کو مانتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ زندگی میں صاحبِ جائیداد اپنی جائیداد اور تمام مملوکہ اشیاء  پر ہر طرح کے جائز تصرف کرنے  کا اختیار رکھتا ہے، چاہے خود استعمال کرے ، چاہے کسی کو ہبہ کرے۔ نیز صاحبِ جائیداد جب تک زندہ ہے، اس کی اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں شرعاً کوئی حق و حصہ نہیں اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہے، تاہم صاحبِ جائیداد  اگر زندگی میں اپنی اولاد کو اپنی جائیداد میں سے کچھ  دینا یا تقسیم کرناچاہے تو یہ ہبہ ہے، اور اس کے لیے شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات یہ ہیں کہ تمام اولاد میں برابری کی جائے ، کسی شرعی وجہ کے بغیر کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ دے، اور نہ ہی بیٹے اور بیٹیوں میں فرق کرے،(یعنی بیٹیوں کو کم دینا یا نہ دینا جائز نہیں ہے) ، اگر بلا وجہ بیٹے اور بیٹیوں میں سے کسی کو کم دے یا محروم کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ البتہ اگر اولاد میں سے کسی بیٹے یا بیٹی کے زیادہ نیک و صالح ہونے یا زیادہ خدمت گزار ہونے یا مالی اعتبار سے کمزور ہونے کی وجہ سے اس کو دیگر کے مقابلہ میں کچھ زائد دے تو اس کی گنجائش ہے۔

 رد المحتار میں ہے:

"لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم."     ( ٥/٦٩٦، سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں