بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم


سوال

میرے والد صاحب فرمارہے ہیں کہ قبل الموت اپنا پیسہ بچوں میں تقسیم کرنا چاہ رہاہوں کہ میرے فوت ہوجانے کے بعد بچے آپس میں نہ لڑیں، اب میرے والد ،والدہ ،ہم چار بھائی اور ایک بہن میں ایک کروڑ شرعی طریقے سے کس طرح تقسیم کریں کہ اس میں میرا والد صاحب بھی اپنے لیے زندگی گزارنے کے لیے کچھ رقم رکھیں اور والد صاحب کی ایک بیوی فوت ہوگئی ہے، کیا اس کا حق ہے؟ والد کہ پیسوں میں جس کا ایک بیٹا بھی ہم چار بھائیوں میں سے ہیں یعنی اس کے ماں کا حق اس کے بیٹے کو الگ سے مل سکتا ہے ،مفتی صاحبان یہ تقسیم میراث کے طریقے پر  کردیجیے ایسا والد صاحب کا کہنا ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ  میراث کی تقسیم کا مسئلہ انتقال کے بعد جاری ہوتا ہے اور وہ شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوتا ہے اور زندگی میں جو کچھ اولاد کو دیا جاتا ہے وہ ہبہ ( گفٹ) کہلاتا ہے ،جس میں اولاد کے درمیان برابری شرعا ضروری ہے ،البتہ اگر کسی بچے کو معقول وجہ کی بنیاد پر کچھ زیادہ دینا چاہیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں اگر سائل کا والد  اپنی زندگی میں اپنی خوشی ورضامندی سے  مال تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنے مال میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے تاکہ بوقت ِ ضرورت کام آئےاور کل مال کے آٹھویں حصہ کے بقدر اپنی بیوی کو دے دے، اس کے بعد باقی مال اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کردے یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے ،نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا، البتہ کسی بیٹی یابیٹے کو کسی معقول شرعی وجہ کی بناء پر دو سروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے یعنی کسی کی شرافت ،دین داری یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بناء پر اس کو دوسروں کہ بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے اور جس کو جو دے اس پر اسے قبضہ وتصرف بھی دے دے صرف نام کردینا کافی نہیں ۔

سائل کے والد کی جس بیوی کا زندگی میں انتقال ہوگیا، ان کا جائیداد میں شرعی حصہ نہیں ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے:

'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''.

(مشکاۃ المصابیح ،باب العطایا ،ج:1،ص:261،قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، باب العطایا،ج:3،ص:193، ط: دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے :

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلا تنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لا يعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اهـ".

(کتاب الوقف،ج:4،ص:444،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں