بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں بیٹوں کو زیادہ حصہ اور بیٹیوں کو کم حصہ دینے کا حکم


سوال

ایک بندہ  جس کے ہاں تقریبًا چھ سات بچے ہیں ،بیٹیاں اور بیٹے،  وہ اپنی زندگی میں بیٹوں اور بیٹیوں میں تقسیم جائیداد کے وقت بیٹوں کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ دیتا ہے،  کیا یہ جائز ہے ؟ وہ بندہ اپنے بیٹوں کو لاکھوں کی گاڑیاں بھی دیتا ہے، کیا اسلام میں اولاد میں برابری کا حکم نہیں ہے؟   بیٹیاں ضرورت مند بھی ہیں،  پھر بھی اچھی زمین بیٹوں کو دی اور دکانیں بھی بیٹوں کو کاروبار کے لیے پیسہ بھی بیٹوں کو دیا۔

جواب

زندگی میں ہر شخص اپنی جائیداد میں خود مالک ہوتا ہے، کسی کو اس میں مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہوتا، البتہ  اگر  صاحبِ جائیداد  اپنی   زندگی  میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"و عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه». وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»."

(مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:

حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔

البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے، بشرطیکہ دوسروں کو ضرر دینا مقصود  نہ ہو ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر والد اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کو زیادہ اور قیمتی چیزیں دیتا ہے اور بیٹیوں کو  بلا وجہ کم اور آدھا حصہ  دیتا ہے تو یہ  طریقہ شرعاً درست نہیں، والد کو چاہیے کہ اس سے توبہ کرے اور جتناحصہ  بیٹوں کو دیا ہے اتنا ہی بیٹیوں کو بھی دے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں