بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندہ اور فوت شدہ حضرات کا توسل


سوال

قرآن پاک کی آیات بتا کے  رہنمائی فرمائیں زندہ  اور  مردہ کے وسیلہ دے کہ دعا کرنا کیسا عمل ہے؟

جواب

 اللہ تبارک و تعالیٰ  کے حضور، کسی نبی علیہ السلام، صحابی رضی اللہ عنہ یا کسی ولی سے اپنے تعلق کا واسطہ دے کر دعا کرنا جمہور اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے، چناچہ قرآنِ کریم کی آیت سے ثابت ہے کہ بنوقریظہ اور بنونضیر کے  یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت  سے  پہلے  آپ  کے  وسیلے  سے فتح ونصرت کی دعا کیا کرتے تھے،  (البقرۃ:89) خود  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقرا ءومہاجرین کے توسل سے دعا فرماتے تھے۔ (مشکاۃ : 2 / 447 قدیمی)

( باب ما جاء في الاستفتاح بصعاليك المسلمين ) الصعاليك جمع صعلوك . قال في القاموس : والصعلوك كعصفور : الفقير وتصعلك افتقر والمراد من الاستفتاح بهم الاستنصار بهم . روى الطبراني عن أمية بن عبد الله بن خالد بن أسيد قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يستفتح بصعاليك المسلمين ، قال المنذري : رواته رواة الصحيح وهو مرسل ، وفي رواية يستنصر بصعاليك المسلمين . قال المناوي في شرح الجامع الصغير : قوله يستنصر بصعاليك المسلمين أي يطلب النصر بدعاء فقرائهم تيمنا بهم ؛ ولأنهم لانكسار خواطرهم دعاؤهم أقرب إجابة ، ورواه في شرح السنة بلفظ : كان يستفتح بصعاليك المهاجرين . قال القاري : أي بفقرائهم وببركة دعائهم . وفي النهاية : أي يستنصر بهم ، ومنه قوله تعالى : إن تستفتحوا فقد جاءكم الفتح قال القاري : ولعل وجه التقييد بالمهاجرين لأنهم فقراء غرباء مظلومون مجتهدون مجاهدون فيرجى تأثير دعائهم ، أكثر من عوام المؤمنين وأغنيائهم انتهى . 

تحفة الأحوذي، كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب ما جاء في الاستفتاح بصعاليك المسلمين)

اور زندہ بزرگوں کے وسیلہ سے بھی دعا مانگی جاسکتی ہے، چناں چہ ایک مرتبہ مدینہ میں خشک سالی ہوئی، تو  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ (جو اس وقت حیات تھے) کے وسیلے سے دعا فرمائی۔  (نیل الاوطار : 4 / 8 طبع مصر)

صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: 

"عن أنس بن مالك أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه کان إذا قحطوا استسقی بالعباس بن عبدالمطلب رضي الله عنه فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إلیك بنبینا ﷺ فتسقینا، وإنا نتوسل إلیك بعمّ نبینا فاسقنا! قال: فیسقون."

 (صحیح البخاري، کتاب العیدین، أبواب الاستسقاء، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا، (1/137) و کتاب المناقب، ذکر عباس بن عبدالمطلب، (1/526) ط: قدیمي)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے، چناں چہ یوں کہتے تھے: اے اللہ ہم آپ سے اپنے نبی ﷺ کے وسیلے سے دعاکرکے بارش طلب کرتے تھے، اب آپ ﷺ کے چچا کے وسیلے سے آپ سے بارش کی دعا کرتے ہیں، چناں چہ بارش ہوجاتی۔

نیز رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نے اپنی تکلیف کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے اسے اہتمام سے وضو کرکے دو رکعت پڑھنے کے ساتھ  اپنے وسیلے سے دعا کرنے کے الفاظ تلقین فرمائے، چناں چہ اسی مجلس میں اس کی بینائی لوٹ آئی۔ (جامع ترمذی، معجم کبیر للطبرانی)

بہرحال انبیاء، اولیاء یا نیک اعمال کے توسل سے دعا کرنا جائز ، بلکہ اجابتِ دعا میں موٴثر ہے، دعا میں توسل کا ثبوت متعدد احادیث سے ہے۔

"عن عثمان بن حنیف، أن رجلاً ضریر البصر أتی النبي صلی الله علیه وسلم فقال: ادع الله أن یعافیني قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فهو خیر لك، قال: فادعه، قال: فأمره أن یتوضأ فیحسن وضوئه ویدعو بهذا الدعاء: اللهم إني أسألك وأتوجه إلیك بنبیك محمد نبي الرحمة، إني توجهت بك إلی ربي في حاجتي هذه لتقضي لي، اللهم فشفعه في. قال الترمذي: هذا حدیث حسن صحیح غریب. وزاد الحاکم في هذه الواقعة: ”فدعا بهذا الدعاء فقام وقد أبصر“

"أخرج الإمام أحمد وغيره بسند صحيح عن عثمان بن حنيف أن رجلاً ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال : ادع الله أن يعافيني . فقال صلى الله عليه وسلم : (إن شئت دعوت لك ، وإن شئت أخّرتُ ذاك ، فهو خير لك. [وفي رواية : (وإن شئتَ صبرتَ فهو خير لك)] ، فقال : ادعهُ. فأمره أن يتوضأ ، فيحسن وضوءه ، فيصلي ركعتين، ويدعو بهذا الدعاء : اللهم إني أسألك ، وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة ، يا محمد إني توجهتُ بك إلى ربي في حاجتي هذه ، فتقضى لي ، اللهم فشفّعه فيَّ وشفّعني فيه) . قال : ففعل الرجل فبرأ".

(جامع ترمذی،  (5 / 569): رقم الحدیث: 3578،بَابٌ، أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

شفاء السقام للسبكي (ص: ٣٥٨)میں ہے:

"إن التوسل بالنبي صلي الله عليه وسلم جائز في كل حال قبل خلقه و بعد خلقه في مدة حياته في الدنيا و بعد موته في مدة البرزخ".

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا توسل ہر حال میں جائز ہے، چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق سے پہلے ہو یا تخلیق کے بعد ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی زندگی میں ہو یا وصال کے بعد حیات برزخی میں ہو۔

حجة الله البالغة میں ہے:

"و من أدب الدعاء تقديم الثناء إلى الله و التوسل بنبي الله ليستجاب". (٢/ ٦)

ترجمہ: دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ پہلے اللہ کی حمد  و ستائش کی جائے ، اور اللہ کے نبی کے وسیلہ سے دعا کی جائے؛ تاکہ قبولیت کا شرف حاصل ہو۔

البتہ کسی نبی یا ولی سے حاجت مانگنا شرک ہے۔  (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی کتاب "اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم" اور فتاوی بینات کی جلد دوم)

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوال کے جواب کا حاصل یہ ہوا کہ جو اکابرِ دین مقدس ہستیاں وفات پا گئی ہوں یا بقید حیات ہوں  دونوں کے وسیلہ سے دعا مانگنا علمائے دیوبند سمیت جمہور اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے، قرآنِ کریم واحادیثِ مبارکہ اور کتبِ فقہ میں اس کی تصریحات موجود ہیں، علمائے دیوبند کی کتاب "المہند علی المفند"  میں بھی واضح طور پر یہی عقیدہ مذکور ہے،  تاہم دعا کی قبولیت کے لیے وسیلہ واجب یا ضروری نہیں، توسل کا انکار کیے بغیر بلاوسیلہ دعا مانگنا بھی جائز ہے، اور توسل والی دعا کی قبولیت کا اللہ کے ذمے لازم سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

{وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ (89)} [البقرة: 89]

تفسیر مظہری میں ہے:

"وَكانُوا أي اليهود مِنْ قَبْلُ أي قبل مبعث النبي صلى الله عليه وسلم يَسْتَفْتِحُونَ يستنصرون عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا أي على مشركي العرب و يقولون: اللهم انصرنا عليهم بالنبي المبعوث في آخر الزمان الذي نجد صفته في التوراة، وكانوا ينصرون."

(التفسير المظهري (1 / 94)،  [البقرة: 89]، الناشر: مكتبة الرشدية )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202148

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں