اگر شادی سے پہلے لڑکی اور لڑکے کے مابین ناجائز تعلقات کی بنا پر حمل ٹھہر گیا ہو اور ان ہی کی شادی کے تقریباً چار یا پانچ ماہ کے بعد بچے کی پیدائش ہو جائے تو کیا وہ بچہ جائز ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر نکاح کے بعد چھ ماہ گزرنے سے پہلے ہی بچہ پیدا ہوگیا تو پھر اس بچہ کا اس زانی سے نسب ثابت نہیں ہوگا اور وہ بچہ ولد الزنا ہی کہلائے گا، البتہ اس صورت میں اگر زانی اس بچے کے باپ ہونے کا اقرار کرلیتا ہے اور زنا کا ذکر نہیں کرتا تو اس بچے کا نسب اس سے ثابت ہوجائے گا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 49):
"لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة.
(قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلايجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلايحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لايثبت قضاءً أيضاً، وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109202860
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن