بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زانی کا مزنیہ کی بیٹی سے نکاح


سوال

ایک عورت تیسرے شوہر کے نکاح میں ہوتے ہوئے کسی زانی کے ساتھ زنا کیا اور اس عورت کا پہلے شوہر سے دو بچے تھے، ایک لڑکا ایک لڑکی اور اس زانی سے دو بچے پیدا کیے، ایک کو زندہ دفنا دیا اور ایک کو ٹیکے سے ختم کیا، مگر عورت کے شوہر کو پتہ نہیں تھا  کہ یہ اس زانی کا بچہ ہے ،وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ میرا بچہ ہے ، پھر اس عورت نے تیسرے شوہر سے طلاق لی تو چوتھے شوہر کے پاس چلی گئی اور وہ مر گیا یا پھر پانچویں شوہر کے پاس چلی گئی اور پھر پانچویں شوہر سے بھاگ گئی اور چھٹے شوہرکے پاس چلی گئی اور اب اس کے نکاح میں ہے ،اب صورت مسئلہ یہ ہے  کہ جب عورت نے تیسرے شوہر سے طلاق لی تو طلاق کے بعد بھی زانی نے اس کے ساتھ زنا کیا اور اس عورت کی پہلے سے ایک بیٹی تھی جو پہلے شوہر سے پیدا ہوئی تھی، جس میں زانی کا کوئی دخل نہیں تھا تو کیا زانی کا اس عورت کی بچی سے نکاح کرنا جائز ہے، جس میں زانی کا کوئی دخل نہیں تھا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں زانی  کے لیے مزنیہ (جس سے زنا کیا ہے ، اس )کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے ۔

مصنف ابن ابی شیبۃ میں ہے:

"عن حجاج، عن أبي هانئ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من نظر إلى فرج امرأة، لم تحل له أمها، ولا ابنتها»."

(کتاب النکاح ، باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته جلد ۳ ص : ۴۸۰  ط : مکتبة الرشد ۔ لبنان)

ترجمہ:"ابو ہانی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص کسی عورت کی شرم گاہ کو دیکھے اس پر اس عورت کی ماں اور بیٹی حرام ہوجائیں گی۔"

مصنف عبد الرزاق میں میں ہے:

"عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن أم الحكم، أنه قال: قال رجل: يا رسول الله، إني زنيت بامرأة في الجاهلية وابنتها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا أرى ذلك، ولا يصلح ذلك: أن تنكح امرأة تطلع من ابنتها على ما اطلعت عليه منها "

(کتاب الطلاق ، باب الرجل یزني باخت امراته جلد ۷ ص : ۲۰۱ ط : المجلس العلمي ۔ هند)

ترجمہ:"ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا کہ میں زمانہ جاہلیت میں ایک عورت سے زنا کرچکا ہوں،  کیا میں اب اس کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ:  میں اس کو جائز نہیں سمجھتا اور یہ بھی جائز نہیں  ہے کہ تو ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بیٹی کے جسم کے ان حصوں کو تو  دیکھ چکا ہے جو حصے تو بیوی کے دیکھے گا۔"

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وتثبت حرمة المصاهرة بالنكاح الصحيح دون الفاسد، كذا في محيط السرخسي. فلو تزوجها نكاحا فاسدا لا تحرم عليه أمها بمجرد العقد بل بالوطء هكذا في البحر الرائق. وتثبت بالوطء حلالا كان أو عن شبهة أو زنا، كذا في فتاوى قاضي خان. فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير."

(کتاب النکاح ، الباب الثالث فی بیان المحرمات ، القسم الثانی المحرمات بالصهریة  جلد ۱ ص : ۲۷۴ ط : دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144309101123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں