کل رات مجھے زمین سے پیسے ملے، اب میں اس کا کیا کروں؟ اس کا کیا حکم ہے؟
صورت مسئولہ میں مذکورہ رقم شرعاً لقطہ ہے اور لقطے کا حکم یہ ہے کہ اسے مالک تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، اعلان کیا جائے، لیکن اگر اس کا مالک نہ ملے اور یہ غالب گمان ہو کہ اب مالک اسے لینے نہیں آئے گا اور مزید وقت اس کی حفاظت کا انتظام کرنا مشکل ہو تو اسے صدقہ کیا جائے۔ اگر آپ فقیر (زکوٰۃ کا مستحق )ہیں تو خودبھی استعمال کرسکتے ہیں، لیکن اگر آپ فقیر نہیں تو خود استعمال نہیں کرسکتے۔ تاہم صدقہ کرنے یا خود فقیر ہونے کی صورت میں استعمال کرنے کے بعد اصل مالک آجائے اور وہ اپنی رقم کا مطالبہ کرے تو تاوان ادا کرنا ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"( وعرف ) أي نادى عليها حيث وجدها وفي المجامع ( إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة ) والثمار ( كانت أمانة ) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه أو لم يعرفها ضمن إن أنكر ربها أخذه للرد وقبل الثاني قوله بيمينه وبه نأخذ حاوي وأقره المصنف وغيره ( ولو من الحرم أو قليلة أو كثيرة ) فلا فرق بين مكان ومكان ولقطة ولقطة ( فينتفع) الرافع ( بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه إلا إذا عرف أنها لذمي فإنها توضع في بيت المال ) تاترخانية و في القنية لو رجا وجود المالك وجب الإيصاء ( فإن جاء مالكها ) بعد التصدق ( خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها ( أو تضمينه )".
و في الرد:
"(قوله: ولقطة ولقطة ) أي لا فرق بينهما أي في وجوب أصل التعريف ليناسب قوله إلى أن علم أن صاحبها لايطلبها؛ فإنه يقتضي تعريف كل لقطة بما يناسبها بخلاف ما مر عن ظاهر الرواية من التعريف حولاً للكل".
( الدر المختار ، کتاب اللقطة 4 / 278 ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101938
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن