بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زخم سے خون نکل رہا تو نماز کا حکم


سوال

اگر کسی کو چوٹ لگ جانے سے خون نکل رہا ہو   بند نہیں ہو رہا ہو اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو وہ شخص کیا اسی حالت میں نماز ادا کرے گا یا قصر کرے گا ؟

جواب

اگر کسی شخص کو چوٹ لگ جائے اور اس کے زخم سے مسلسل خون نکل رہا ہوتواس شخص کے لیے وضو اور کپڑوں کی پاکی کے لحاظ سے حکم یہ ہے کہ :

اگر خون کا تسلسل ایسا ہو کہ یہ شخص مکمل پاکی کی حالت میں وضوکرکے وقت کے اندر  ایک فرض نماز بھی ادا نہیں کرسکتا یعنی اتنی مہلت بھی نہیں ملتی تو اس صورت میں یہ شخص شرعاً معذور کہلائے گا اوراس کے بعد جب تک ہر نماز کے وقت میں کسی نہ کسی درجہ میں یہ عذر یعنی خون کا نکلنا پایا جائے یہ شخص معذور کے حکم میں ہی رہے گا۔

اور شرعی معذور   کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد   وضو کرلیا کرے اور پھر اس وضو سے اس  وقت میں جتنی نمازیں  چاہے فرائض اور نوافل ادا کرلے (اس ایک وقت کے درمیان میں زخم سے جتنا بھی خون بہے وہ پاک ہی رہے گا بشرطیکہ  وضو کوتوڑنے والا کوئی اور سبب نہ پایا جائے) یہاں تک کہ وقت ختم ہوجائے، یعنی جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو اس کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے وقت کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔یہ حکم وضو کے اعتبار سے تھا۔

اور اگر خون کے قطرےجسم یا  کپڑوں پر گرتے  ہوں تو اس صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ وہ کس تسلسل سے نکل رہے ہیں، اگر اتنا بھی وقت نہ ملے کہ اگر فرض نماز شروع کرنے سے پہلے جسم یا  کپڑے کو دھو  لیا جائے تب بھی  دورانِ نماز دوبارہ زخم سے خون نکل کر  جسم یا کپڑوں پر لگ جائے گا تو اس صورت میں ان قطروں کا دھونا واجب نہ ہوگا،اگرچہ یہ قطرے مقدارِ درہم سے تجاوز ہی کیوں نہ کرجائیں اور اگر  یہ گمان ہے کہ ان قطروں کو دھونے کے بعد یہ دورانِ نماز مزید نہ نکلیں گے تو اس صورت میں جسم یا کپڑوں پر خون لگنے  کی صورت میں ان کا دھونا واجب ہوگا اور بغیر دھوئے  نماز پڑھنے سے نماز نہیں ہوگی۔

اس صورت میں اگر اس زخم پر پٹی باندھنے کی صورت ممکن ہو تو پٹی باندھ دی جائے اور اگر  زخم اعضائے وضو پر ہو تو وضو کرتے وقت اس پٹی پر مسح کرلیاجائے۔تاکہ خون پٹی کے اندر ہی جذب ہوتا رہے، کپڑے محفوظ ہوں ۔اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو بلکہ خون کپڑوں پر لگ جاتا ہو تو وہی حکم ہے جو اوپر لکھا جاچکاہے۔

باقی مذکورہ شخص اگر مقیم ہے تو پوری نماز پڑھے گا اور اگر شرعی مسافر ہے تو قصر کرے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لايمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لايجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل. (وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه  ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر. (وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لايغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى،  وكذا مريض لايبسط ثوبه إلا تنجس فوراً له تركه  (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته."

(باب الحیض ، جلد1 ص: 305، ط: سعید)

فتاوى  ہندیہ میں ہے:

"(ومما يتصل بذلك أحكام المعذور) شرط ثبوت العذر ابتداء أن يستوعب استمراره وقت الصلاة كاملًا وهو الأظهر كالانقطاع لايثبت ما لم يستوعب الوقت كله ... وشرط بقائه أن لايمضي عليه وقت فرض إلا والحدث الذي ابتلي به يوجد فيه، هكذا في التبيين . المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لايرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل، هكذا في البحر الرائق ... إذا كان به جرح سائل وقد شد عليه خرقة فأصابها الدم أكثر من قدر الدم أو أصاب ثوبه إن كان بحال لو غسله يتنجس ثانياً قبل الفراغ من الصلاة جاز أن لايغسله وصلى قبل أن يغسله وإلا فلا، هذا هو المختار هكذا في المضمرات."

(الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة، کتاب الطہارۃ، جلد1، ص:40، ط:دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101441

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں