زکوٰۃ کی رقم سے غریب سید زادی کی کیسے مدد کریں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: "یہ صدقات (زکات اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اَموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے۔"
اگر سید غریب اور محتاج ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں پر لازم ہے کہ وہ سادات کی امداد زکات اور صدقات واجبہ کے علاوہ رقم سے کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں اور یہ بڑا اجروثواب کا کام ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی دلیل ہے۔ اور ان شاء اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی قوی امید کی جاسکتی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہے:" یعنی رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کا لحاظ وخیال کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کی حفاظت کرو۔"
صحیح مسلم میں ہے:
"حدثنا هارون بن معروف.........لعبد المطلب بن ربيعة، وللفضل بن عباس، ائتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم وساق الحديث بنحو حديث مالك، وقال فيه.........ثم قال لنا إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد."
(کتاب الزکاۃ ، باب ترک استعمال آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی الصدقة جلد ۲ص : ۷۵۴ ط : دار احیاءالتراث ۔ العربي)
صحیح بخاری میں ہے:
"أخبرني عبد الله بن عبد الوهاب: حدثنا خالد: حدثنا شعبة، عن واقد قال : سمعت أبي يحدث، عن ابن عمر، عن أبي بكر رضي الله عنهم قال: «ارقبوا محمدا صلى الله عليه وسلم في أهل بيته»"
(کتاب فضائل الصحابة ، باب مناقب قرابة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جلد ۵ ص : ۲۰ ط : السلطانیة ، بالمطبعة الکبری الامیریة ، ببولاق مصر)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله وبني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم لحديث البخاري «نحن - أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة» ولحديث أبي داود «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لا تحل لنا الصدقة»"
(کتاب الزکوۃ ، باب مصرف الزکوۃ جلد ۲ص : ۲۶۵ ط : دارالکتاب الاسلامي)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309100915
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن