ایک خاندان ہے جس کے بارے میں تحصیل ریکارڈ میں یہ درج ہے کہ یہ سید خاندان ہیں اور اس خاندان کے لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ سید ہیں، لیکن ان کا پورا شجرہ نسب محفوظ نہیں ہے، آدھا محفوظ ہے تقریبا 20 یا 22 پشتوں تک شجرہ محفوظ ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ خاندان مستحق ہونے کی صورت میں زکوۃ لے سکتا ہے؟ جبکہ ان کے پاس پورا شجرہ نسب نہیں ہے۔
واضح رہے کہ سید ہونے کے لئے عرف سید ہونے کی شہرت کافی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ سید نہ ہونے پر کوئی واضح ثبوت موجود نہ ہو، چناں چہ اگر مذکورہ خاندان کے لوگ آباؤاجداد سے سید مشہور ہیں، تو سید ہونے کے لیے اتنی شہرت کافی ہے،سید ہونے کے لیے مکمل نسب نامہ محفوظ ہونا شرط نہیں ہے، لہٰذا مذکورہ خاندان کے لوگوں کے لیے زکات اور صدقاتِ واجبہ لینا جائز نہیں ہے، البتہ لوگوں کو چاہیے کہ اپنی سعادت سمجھ کر ہدایا اور عطیے کی رقم سے اس خاندان کے لوگوں کی مدد کریں۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:
"قال: ولايجوز للشاهد أن يشهد بشيء لم يعاينه إلا النسب والموت والنكاح والدخول وولاية القاضي فإنه يسعه أن يشهد بهذه الأشياء إذا أخبره بها من يثق به) وهذا استحسان. والقياس أن لا تجوز لأن الشهادة مشتقة من المشاهدة وذلك بالعلم ولم يحصل فصار كالبيع. وجه الاستحسان أن هذه أمور تختص بمعاينة أسبابها خواص من الناس، ويتعلق بها أحكام تبقى على انقضاء القرون، فلو لم تقبل فيها الشهادة بالتسامع أدى إلى الحرج وتعطيل الأحكام.
(قوله: ولا يجوز للشاهد أن يشهد بشيء لم يعاينه) أي لم يقطع به من جهة المعاينة بالعين أو السماع إلا في النسب والموت والنكاح والدخول وولاية القاضي فإنه يسعه أن يشهد بهذه الأمور إذا أخبره بها من يثق به من رجلين عدلين أو رجل وامرأتين ... وفي الفصول عن شهادات المحيط: في النسب أن يسمع أنه فلان بن فلان من جماعة لايتصور تواطؤهم على الكذب عند أبي حنيفة، وعندهما إذا أخبره عدلان أنه ابن فلان تحل الشهادة، وأبو بكر الإسكاف كان يفتي بقولهما، وهو اختيار النسفي."
(كتاب الشهادات،388/7، ط:دارالفکر)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي - صلى الله عليه وسلم - كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم كذا في الكافي."
(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:189، ط:دارالفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101140
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن