بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ ساقط کرنے کے حیلہ اختیارکرنے کا حکم


سوال

ایک دوست کا کہنا ہے کہ اگر ایک دولت مند شخص اپنی دولت بیوی کو ہبہ کر دے تو وہ زکوٰۃ وصول کرنے کا مستحق ہو جاتا ہے ( واضح رہے کہ یہ ہبہ صرف زکوٰۃ لینے کے لیے وقتی طور پر کرتا ہے) کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کوئی دولت مندشخص اگراپنی دولت حقیقی معنی میں بیوی کو گفٹ کرکے عملاً قبضہ وتصرف دے کرتہی دست ہوگیا ہوکہ اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد  چاندی کے نصاب کے برابرکوئی مال نہ رہاہوتووہ مستحق زکوٰۃ  توبن جائے گا،لیکن زکوٰۃ لینے کے لیے ایساکرناکہ اس پر زکوۃ فرض نہ ہواوروہ خودمستحق بن جائے،جائزنہیں بلکہ مکروہ تحریمی ہے،اس سے بچناضروری ہے۔

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال:کوئی شخص سال آنے پراپنامال لڑکے کوہبہ کردے،پھرجب دوسراسال آنے لگے توبیٹاباپ کو ہبہ کردے،توکیاایساکرناجائزہے،اورکیایہ بھی حیلہ بازی ہے۔

جواب: اگراس سے مقصود یہ ہو کہ زکوۃ فرض نہ ہوتوایساکرنامکروہ ہے۔

(ج:9، ص:340، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

فتاویٰ بینات میں ہے:

"اس پر قانون فقہ کی رو سے اگرچہ زکوۃ ادا کرنے کا فتوی نہیں ہوگا،  لیکن زکوۃ سے بچنے کی نیت سے اس طرح مستقل طور پر حیلہ اختیار کرنا اور مال کو مال پر، دولت کو دولت پر جمع کرتے رہنا غضبِ الہی کو دعوت دینا ہے، اپنے آپ کو اور مال کو گندا کرنا ہے، دنیا میں تو اس قسم کا حیلہ اختیار کرنے سے زکوۃ بچ جائے گی،  لیکن آخرت میں اس پر سخت مؤاخذہ ہوگا۔۔۔الخ"

(کتاب الزکوۃ ،ج2/ ص689 ط: مکتبہ بینات)

فتاوی شامی میں ہے:

"وإذا ‌فعله ‌حيلة لدفع الوجوب كأن استبدل نصاب السائمة بآخر أو أخرجه عن ملكه ثم أدخله فيه، قال أبو يوسف لا يكره؛ لأنه امتناع عن الوجوب لا إبطال حق الغير.

وفي المحيط أنه الأصح.

وقال محمد: يكره، واختاره الشيخ حميد الدين الضرير؛ لأن فيه إضرارا بالفقراء وإبطال حقهم مآلا، وكذا الخلاف في حيلة دفع الشفعة قبل وجوبها.

وقيل الفتوى في الشفعة على قول أبي يوسف، وفي الزكاة على قول محمد، وهذا تفصيل حسن شرح درر البحار."

(كتاب الزكوة ج : 2 ص : 284، ط : سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100202

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں