بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی فرضیت کس پر ہے؟ مقروض پر زکوۃ لازم ہے یا نہیں؟


سوال

زکوۃ کن لوگوں پر واجب ہے؟ اگر وہ قرض دار ہوں، پھر بھی زکوۃ واجب ہے؟

جواب

وجوبِ زکوۃ کے لیے صاحبِ نصاب ہونا اور زکوۃ کی ادائیگی واجب ہونے کے لیے اس نصاب پر سال گزرنا شرعاً ضروری ہے،  جس روز کسی عاقل بالغ مسلمان کے پاس بنیادی ضرورت سے زائد نصاب کے بقدر مال (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت) جمع ہوجائے اس دن سے وہ شرعاً صاحبِ نصاب شمار ہوگا اور اسی دن سے سال کا حساب بھی کیا جائے گا، اور قمری حساب سے سال پورا ہونے پر اسی تاریخ کے اعتبار سے زکوۃ واجب ہوگی۔

زکوۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا،  یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدرنقد رقم یامال تجارت ہے، اس نصاب پر جب سال گزرجائے توزکات  کی ادائیگی فرض ہوجاتی ہے۔

واضح رہےکہ ساڑھے سات تولہ سونے پر زکوۃ کا مدار اس وقت ہے کہ جب ملکیت میں صرف سونا ہو، اس کے علاوہ کسی اور جنس میں سے کوئی مال پاس نہ، لیکن اگر سونے کے ساتھ ساتھ کچھ اور مالیت بھی ہےتو پھرزکوۃ  کی فرضیت کا مدار ساڑھے باون تولہ چاندی پرہوگا۔  یعنی اگرکسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہے اوراس کے علاوہ نقدرقم، چاندی یاسامان تجارت وغیرہ بالکل نہ ہوتو اس شخص پرزکوۃ فرض نہیں ہوگی، لیکن ساڑھے سات تولہ سے کم سونے کے ساتھ ساتھ کسی کے پاس چاندی یا نقد رقم یاسامانِ تجارت موجود ہو توپھراس کے لیے نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت ہے، لہٰذا اگر اس سونے اور باقی اشیاء کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر ہو تواس پرزکوۃ فرض ہوگی۔

باقی قرض دار پر زکوۃ لازم ہے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس قابل زکوۃ اموال موجود ہوں اور جتنی مالیت موجود ہے اتنی ہی مقدار میں اس شخص پر قرض بھی ہے ، یا یہ مالیت کم ہے اور قرض زیادہ ہے تو اس شخص پر زکوۃ فرض نہیں ہے۔اسی طرح اگر مقروض کے پاس اتنی مالیت ہے کہ قرض اداکرنے کے بعد بقیہ مال نصاب کو نہیں پہنچتا بلکہ نصاب سے کم ہے تو اس صورت میں بھی نصاب سے کم مالیت پر زکوۃ نہیں ہے۔

لیکن اگر کوئی شخص مقروض ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد بقیہ مال نصاب کو پہنچتا ہو اور سال گزرچکا ہو اس صورت میں ایسے شخص پر قرض منہا کرنے کے بعد بقیہ مال کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہے۔

فتح القدير  میں ہے:

"( ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه ) وقال الشافعي : تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام .

ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة ( وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا ) لفراغه عن الحاجة الأصلية ، والمراد به دين له مطالب من جهة العباد حتى لا يمنع دين النذر والكفارة ".

(کتاب الزکوۃ، 160/2/ دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں