بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کن لوگوں کو دے سکتے ہیں؟


سوال

زکات کن لوگوں کو دے سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں زکات کے درجہ ذیل مصارف ہیں جنہیں زکات دی جا سکتی ہے:

۱۔۔۔فقیر، فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔

۲۔۔۔مسکین، مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔

۳۔۔۔عامل، عامل وہ ہے جسے بادشاہِ اسلام نے زکاۃ اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہو، اس کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔ (لیکن آج کل یہ متروک ہے اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے)۔

۴۔۔۔مؤلفۃ قلوبہم، یہ وہ لوگ ہیں جن کی دل جوئی کے لیے ان کو زکوۃ دی  جاتی  تھی۔ لیکن غلبہ اسلام کے بعد اس کی علت نہیں رہی ، یا یہ منسوخ ہوا۔

۵۔۔۔رِقاب سے مراد ہے غلامی سے گردن رہا کرانا، لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔

۶۔۔۔غارم، غارم سے مراد مقروض ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔

۷۔۔۔فی سبیل اللہ، فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں: مثلاً کوئی مجاہد جہاد کے لیے جانا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس سواری ، زادراہ اور اسلحہ وغیرہ نہیں تو اسے مالِ زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔

یا حج کو جارہا ہو راستہ میں مال ختم ہوجائے تو اس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔

۸۔۔۔ابن السبیل، ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے تو اس کو بھی زکاۃ  کی رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو،یا طالبِ علم علم دین پڑھنا چاہتا ہے، اسے بھی زکوة دے سکتے ہیں کہ یہ بھی راہِ خدا میں دینا ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"باب المصرف أي: مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي: دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.، (ومسكين من لا شيء له) على المذهب؛ لقوله تعالى {أو مسكينا ذا متربة} [البلد: 16]- وآية السفينة للترحم، (وعامل) يعم الساعي والعاشر (فيعطى) ولو غنيا لا هاشميا ؛ لأنه فرغ نفسه لهذا العمل ، فيحتاج إلى الكفاية ، والغنى لا يمنع من تناولها عند الحاجة كابن السبيل بحر عن البدائع،  ..... (بقدر عمله)ما يكفيه وأعوانه بالوسط لكن لا يزاد على نصف ما يقبضه. (ومكاتب) لغير هاشمي، ولو عجز حل لمولاه ولو غنيا كفقير استغنى وابن سبيل وصل لماله.وسكت عن المؤلفة قلوبهم لسقوطهم إما بزوال العلة أو نسخ بقوله - صلى الله عليه وسلم - لمعاذ في آخر الأمر «خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم» (ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه) وفي الظهيرية: الدفع للمديون أولى منه للفقير. (وفي سبيل الله وهو منقطع الغزاة)، وقيل: الحاج، وقيل: طلبة العلم، وفسره في البدائع بجميع القرب وثمرة الاختلاف في نحو الأوقاف، (وابن السبيل وهو) كل (من له ماله لا معه)ومنه ما لو كان ماله مؤجلا أو على غائب أو معسر أو جاحد ولو له بينة في الأصح (يصرف) المزكى (إلى كلهم أو إلى بعضهم) ".

(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة، ج: ۲، صفحہ: ۳۳۹ تا ۳۴۴، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101853

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں