بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زیر تعمیر عمارت میں جو منزل ابھی تک بنی نہ ہو اس کو خرید کر کرایہ پر دینا


سوال

بلڈنگ کا  صرف نقشہ تیار ہے،  اس میں تیسرے فلور پر دکان بک کرنا کیسا ہے؟  اور اگر یک مشت ادائیگی کی تو  ابھی سے کرایہ ملنا شروع ہو جائے گا، کیا ایسے مکان کا کرایہ لینا صحیح ہے جب کہ مکان ابھی تیار بھی نہیں ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس  پلاٹ پر ابھی تک تعمیر نہ ہوئی ہو، اُس کی دکانیں یا مکانات جو صرف نقشے کی حد تک موجود ہوں، اُس کا باقاعدہ سودا کرنا درست نہیں ہوتا؛ کیوں کہ جو چیز ملکیت میں نہ ہو  اور معدوم ہو  اس کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، جواز  کی دو صورتیں ہیں:

(1)  ایک یہ ہے کہ جو مکان یا دکان لوگوں کو فروخت کی جارہی ہو   اس کا کچھ نہ کچھ اسٹرکچر یعنی بنیادی ڈھانچا  بن چکا ہو، ایسی صورت میں اُس کا سودا کیا جاسکتا ہے۔

(2)  جس دکان یا مکان کا ڈھانچہ بھی نہ بنا ہو مثلاً ابھی ایک منزل بھی نہیں بنی اور تیسری منزل کی دکانیں یا مکانات بیچی جا رہی ہوں تو یہ سودا جائز نہیں ہے، اس صورت میں وعدۂ بیع  (خریداری کا وعدہ)  کیا جاسکتا ہے،  یعنی صرف بکنگ کی جاسکتی ہے   کہ  مثلاً    فلاں مکان فلاں کو  فروخت کیا جائے گا، اور اس بکنگ کی مد میں اس سے ایڈوانس رقم بھی لینا جائز ہو گا۔

لیکن جو منزل اب تک تیار ہی نہ ہوئی ہو اور اُس کا ڈھانچا بھی کھڑا نہ ہوا ہو اُس دکان کو کسی کو کرایہ پر دے کر اُس کا کرایہ وصول کرنا کسی صورت جائز نہیں؛ کیوں کہ کرایہ داری کے معاملہ میں مالک مکان یا مالک دکان کرایہ دار کو کسی منفعت کا مالک بناتا ہے، اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب منفعت وصول کرنے کے لیے مکان یا دکان کا وجود ہو، اگر مکان یا دکان کا وجود ہی نہ ہو گا تو کرایہ داری کا معاملہ ہی درست نہ ہو گا اور کرایہ وصول کرنا بھی نادرست ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لاينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحاً. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعاً بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى".

(4/ 516، كتاب البیوع، مطلب البیع بالتعاطى،  ط: سعید)

مجمع الأنهر میں ہے:

"(هي) أي الإجارة (بيع منفعة) احتراز عن بيع عين (معلومة) جنسًا وقدرًا (بعوض)."

(کتاب الاجارۃ، 2/ 368)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200138

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں