بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 محرم 1447ھ 16 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

زائد رقم دے کر کھلے پیسے خریدنے کا حکم


سوال

مارکیٹ میں تاجروں کو کھلے نوٹوں کی بہت ضرورت ہوتی ہے، اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مختلف طریقے مارکیٹ میں رائج ہیں۔ شہر میں مختلف جگہوں پر ہماری دکانیں ہیں اور ہماری دکانوں پر بھی مستقل بڑی مقدار میں کھلے نوٹوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ کھلا لینے کے لیے اسٹاف کو بینک بھیجنے میں شہر کے حالات (اور لوگوں کی بدنیتی) کی وجہ سے پیسے ضائع ہونے کا خطرہ رہتا ہے، مارکیٹ کی اس ضرورت کے پیش نظر کچھ لوگ دکانداروں کو کھلے نوٹ فراہم کرنے کا کام کرتے ہیں اور کچھ سروس چارجز لیتے ہیں۔ ہمارا معاملہ بھی ایسے ہی ایک شخص کے ساتھ ہے۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ وہ اپنے طور پر مختلف جگہوں سے کھلے نوٹ اکٹھے کرتا ہے (جس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں) اور پھر اپنے ملکیتی کل روپے لے کر ہماری یا کسی بھی دوسری دکان پر اپنے رسک پر جاتا ہے اور مطلوبہ رقم کے کھلے نوٹ اتنے ہی رقم کے عوض میں فراہم کرتا ہے، البتہ اپنے طے شدہ سروس چارجز ہر وزٹ (چکر) پر وصول کرتا ہے، مثلاً دو سو روپے فی وزٹ، یہ چارجز متعین ہوتے ہیں اور ان کا تعلق کھلے پیسوں کی مقدار سے نہیں ہوتا (تاہم ہر دکان کی ضرورت عام طور پر ایک مخصوص حد کے اندر اندر ہی ہوتی ہے) اس کا یہ معاملہ صرف ہمارے ساتھ نہیں، بلکہ وہ متعدد دکانداروں کو سروس دیتا ہے اور اسی طرح اپنے چارجز  وصول کرتا ہے۔

مذکورہ معاملے کے شرعی حکم کے تلاش میں درج ذیل پہلو ہمارے سامنے آئے۔

1۔ ایک پہلو یہ ہے کہ چونکہ کھلے نو ٹ اسی کی ملکیت ہوتی ہے، تو اس وجہ سے اس کے ساتھ تبادلہ دراصل بیع ہوگی، اور بیع میں تساوی ضروری ہے، اس میں اگر اضافہ ہوگا، خواہ وہ سروس چارجز کے نام پر ہی کیوں نہ ہو، تو سود ہوگا اور ربا الفضل کے زمرے میں آئے گا۔ یہ پہلو عدمِ جواز کا ہے۔

2۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس معاملے میں دو جہتیں ہیں بیع اور اجارہ کی، اور دونوں کا اعتبار کرنا معقول بھی ہے، تو اس معاملے پر ان دونوں جہتوں کے اعتبار سے حکم لگایا جاسکتا ہے، جیسا کہ آن لائن کاروبار میں رائج ہے، چنانچہ جب کوئی چیز آن لائن منگواتے ہیں تو اس میں ثمن کے ساتھ ڈلیوری چارجز بھی ادا کرتے ہیں، تو یہ بیع اور اجارہ دونوں ساتھ ساتھ ہیں، اسی طرح جیسے مرمت کے کام میں بسا اوقات اجارہ اور بیع جمع ہوتی ہے، لہٰذا مذکورہ معاملے میں بھی نوٹوں کی بیع کے ساتھ ساتھ ان کو جمع کرنا اور پہنچانے کا عمل اجارے کے زمرے میں ہوگا اور سود کے زمرے میں نہیں آئے گا، تاہم اس میں یہ سوال بہرحال اپنی جگہ ہے کہ جب تک نوٹوں کا تبادلہ نہیں ہوتا اس وقت تک نوٹ بہرحال اسی کی ملکیت ہوتی ہے؛ اس لیے تبادلے سے پہلے کا سارا عمل اسی کے کھاتے میں ہونا چاہیے اور اس کو اجارہ شمار نہیں کرنا چاہیے۔

3۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ چونکہ ہم نوٹ دینے والے شخص کو اپنی مطلوبہ جگہ پر بلا کر بیع کر رہے ہیں، اور یہ بہرحال ہمارے فائدے کا عمل ہے، تو کیا اضافی رقم اس اضافی سہولت کے عوض میں قرار دی جا سکتی ہیں؟

ان تفصیلات کی روشنی میں مندرجہ سے سوالات کے بارے میں شرعی راہ نمائی کی درخواست ہے:

1۔ کیا مذکورہ معاملہ درست ہے یا نہیں؟

2۔ اگر درست نہیں، تو کیا اس کا یہ حل ممکن ہے کہ کھلا نوٹ دینے والا کھلے کے ساتھ ساتھ کوئی معمولی مالیت کی شئی مثلاً قلم وغیرہ بھی ہمیں دے دے، تاکہ اضافی رقم اس شئی کے بدلے شمار ہو جائے؟ یا اس کے علاوہ کوئی متبادل صورت ہوسکتی؟ کیونکہ یہ معاملہ شہر میں بڑے پیمانے پر رائج ہے اور تاجروں کی روزانہ کی ضرورت ہے، اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی یہ سروس بلا معاوضہ یا صرف حقیقی اخراجات کے بدلے فراہم کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔

جواب

واضح رہے کہ روپے پیسے کا تبادلہ شرعًا ”بیع الصرف“ کے زمرے میں آتا ہے، جس میں عوضین کا (ایک جنس ہونے کی صورت میں ) برابر سرابر ہونا اور معاملہ کا ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری ہے، چنانچہ عوضین (اگر ایک جنس ہو، تو اس) میں کمی بیشی یا تبادلے کا معاملہ بطورِ اُدھار کرنا جائز نہیں ہے، اور یہ سود ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں روپے کے  بدلے  میں  روپے  کی  خرید و فروخت  پر کمی بیشی کرنا شرعًا  سود  ہونے  کی وجہ سے ناجائز ہے اور مذکورہ ضرورت کے پیشِ نظر بھی (سروس چارجز کے نام پر کمی بیشی کے ساتھ) اس طرح لین دین کی شرعًا اجازت نہیں ہے، البتہ اس معاملہ میں  جواز  کی صورت یہ ہوسکتی ہے  کہ کھلا نوٹ دینے والا کھلے کے ساتھ کوئی معمولی چیز(مثلاً: قلم، ٹافی وغیرہ) بھی دے دے، تو  ایسی صورت میں کھلے نوٹ کے عوض دی جانے والی زائد رقم اس دوسری چیز کے بدلہ میں ہوجائے گی اور معاملہ جائز ہوجائے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرعًا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسًا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل)."

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:5، ص:257، ط:ایج ایم سعید)

تکملۃ فتح الملھم میں ہے: 

 "وأما الأوراق النقدية وهي التي تسمى "نوت" ..... فالذين يعتبرونها سندات دين، ينبغي أن لايجوز عندهم مبادلة بعضها ببعض أصلا؛ لاستلزام بيع الدين بالدين، ولكن قدمنا هناك أن المختار عندنا قول من يجعلها أثمانا، وحينئذ نجرى عليها أحكام الفلوس النافقة سواء بسواء، وقدمنا آنفا أن مبادلة الفلوس بجنسها لايجوز بالتفاضل عند محمد رحمه الله، ينبغى أن يفتى بهذا القول في هذا الزمان سدا لباب الربا، وعليه فلايجوز مبادلة الأوراق النقدية بجنسها متفاضلا، ويجوز إذا كانت متماثلا."

(كتاب المساقاة والمزارعة، باب الربا، حكم الأوراق النقدية، ج:1، ص:590، ط:إدارة المعارف کراتشي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144608100715

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں