بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوب پر آڈیو اپلوڈ کرنے کا حکم


سوال

میں یوٹیوب پر  ان موضوعات پر ویڈیوز بناتا ہوں جن کا مجھے کوئی تجربہ نہیں ہے اور مجھے ان ویڈیوز کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ لیکن میں گوگل نیوز کا استعمال کرتا ہوں ،میں ان مضامین کو پڑھتا ہوں اور آڈیو ریکارڈ کرکے اسے یوٹیوب پر اپ لوڈ کردیتا ہوں۔ آیا یہ کام کرنا حلا ل ہے یا حرام؟

وضاحت:گوگل نیوز ایک ڈیجیٹل اخبار ہے ،جس سے ہزاروں اخبارات و مضامین وابستہ ہیں،جن کی بنیادی خبروں،مضامین اور کہانیوں وغیرہ کو صارفین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، اور ہر صارف اپنی مرضی کے مطابق مضامین اور خبروں  کا انتخاب کرسکتا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں استفادہ کی غرض سے گوگل نیوز سے مختلف مضامین وغیرہ کا انتخاب کرکے انہیں ایک مرتب شکل دینا اس وقت جائز ہےکہ جب چند مخصوص شرائط  کا لحاظ رکھا جاۓ ،وہ شرائط درج ذیل ہیں :

1۔  جان د ار  کی تصویر والی ویڈیو  یا تصویر اپ لوڈ  نہ کی جاۓ۔

2۔ اس ویڈیو میں میوزک  اور موسیقی  بالکل نہ ہو۔

3۔ ویڈیو پر دکھایا جانے ولا  اشتہار  غیر شرعی نہ  ہو ۔

4۔   کسی بھی غیر شرعی چیز (مثلاً :کسی ناجائز یا حرام چیز )کا اشتہار نہ دکھایا جاتا ہو۔

5۔  اس  کام کے لیے  یوٹیوب انتظامیہ سے کوئی غیر شرعی معاہدہ نہ کرنا پڑتا ہو۔

اگر ان شرائط کا لحاظ کرکے یوٹیوب پر ویدیو اپ لوڈ کی جاۓ گی تو یہ جائز ہے  ،بصورتِ دیگر اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جاۓ تو پھر مذکورہ کام شرعاً ناجائز  ہوگا۔

عام طور پر اگر  چینل بنانے والے کی اَپ لوڈ کردہ ویڈیو میں مذکورہ خرابیاں  نہ بھی ہوں تب بھی یوٹیوب کی طرف سے لگائے جانے والے  اشتہار میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، اور ہماری معلومات کے مطابق  یوٹیوب  پر چینل بناتے وقت ہی معاہدہ کیا جاتاہے کہ  مخصوص مدت میں چینل کے سبسکرائبرز اور  ویورز مخصوص تعداد تک پہنچیں گے تو یوٹیوب انتظامیہ اس چینل پر مختلف لوگوں کے اشتہارات چلانے کی مجاز ہوگی، اور چینل بنانے والا اس معاہدے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتاہے، الا یہ کہ اشتہارات بند کرنے کے لیے وہ باقاعدہ فیس ادا کرے اور چینل کو کمرشل بنیاد پر استعمال نہ کرے، اور ان اشتہارات کا انتخاب کسی بھی یوزر کی سرچنگ بیس یا لوکیشن یا مختلف لوگوں کے اعتبار سے مختلف ہوسکتاہے، چینل  بناتے وقت چوں کہ اس معاہدے پر رضامندی پائی جاتی ہے، لہٰذا یوٹیوب پر چینل بنانا ہی درست نہیں ہے، اور چینل بناتے وقت یوٹیوب انتظامیہ کو جب ایڈ چلانے کی اجازت دی جائے تو اس کے بعد وہ  مختلف ڈیوائسز کی سرچنگ بیس یا لوکیشن یا ملکوں کے حساب سے مختلف ایڈ چلاتے ہیں، مثلاً اگر  پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ کوئی اشتہار چلاتے ہیں، مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں،  اور پاکستان میں ہی ایک شخص کی ڈیوائس پر الگ اشتہار چلتاہے تو دوسرے شخص کی ڈیوائس پر دوسری نوعیت کا اشتہار چل سکتاہے، جس  میں بسااوقات حرام اور  ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں، ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر یوٹیوب پر ویڈیو اپ لوڈ کرکے پیسے کمانے کی شرعًا اجازت نہیں ہے۔

قرآن مجید میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

"وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى ‌وَلا ‌تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ(المائدة:2)"

ترجمہ:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ و زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ،بلاشبہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے."(بیان القرآن )

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(المائدۃ : 296/3، ط: داراحیاء التراث العربي)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا أيها الناس، إن الله طيب ولا يقبل إلا طيبا وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين»، فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم} [المؤمنون: 51]، وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 172] قال: «وذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يده إلى السماء يا رب، يا رب ‌ومطعمه ‌حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك»."

(أبواب تفسیر القرآن، ومن سورۃ البقرۃ، 128/2، ط:قديمي)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع."

(كتاب الحظر والإباحة، 348،49/6،ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501102614

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں