بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تنسیخ نکاح کا طریقہ


سوال

ہم نے اپنی بہن کے لیے عدالت میں حاضر ہو کر خلع کی ڈگری لی ہے ،جو کہ یک طرفہ تھی ،تفصیل منسلکہ خلع نامہ میں موجود ہیں ،آپ ہمیں بتائیں کہ آیا خلع واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟شوہر خلع پر راضی نہیں ہے ،لیکن 2 سال ہو گئے ہیں بیوی کو والدین کے پاس چھوڑ کر بھاگ گیا ہے ،سعودی عرب چلا گیا ہے ،نہ جرگہ کے لیے راضی ہے ،نہ نان نفقہ دینے پر ،دو بچے بھی ہیں  ،ان کا  خرچہ بھی کچھ نہیں دیا ہے،بلکہ ان کی پیدائش پر جو خرچہ ہوا تھا وہ بھی نہیں دیا  ،جو وقت گزارا ہے اس میں بھی خوب تشدد کیا ہے ،بیوی بھی اب اس کے ساتھ رہنے پر راضی نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ  خلع کے معتبر اور درست ہونے کے لیے زوجین کی رضامندی شرعاً ضروری ہے،  کوئی  ایک فریق راضی ہو ،دوسرا راضی نہ ہو تو خلع شرعاً معتبر نہیں ہوتا۔

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ شوہر خلع دینے پر راضی  نہیں تھا،اس لیے محض یک طرفہ عدالتی فیصلے سے  شرعاً  خلع واقع نہیں ہوئی  ، نکاح  بدستور قائم ہے۔اگر  سائلہ کا شوہر سائلہ کو نہ ساتھ رکھ رہاہے، اور نہ ہی طلاق یا خلع دے رہا ہے اور سائلہ اپنے شوہر سے رشتہ ازدواج ختم کرنا چاہتی ہے تو سائلہ شوہر کے حقوق ، نان و نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر  تنسیخِ نکاح کا  مقدمہ مسلم  عدالت میں دائر کرے،پھر اپنے نکاح کو شرعی گواہوں سے ثابت کرے ،اس کے بعد شوہر کے حقوق ادا نہ کرنے کو شرعی گواہوں سے ثابت کرے ،پھرقاضی شرعی شہادت کے ذریعہ پوری تحقیق کرے،اگر عورت کا دعوی صحیح ثابت ہو کہ شوہر باوجود وسعت کے حقوق ادا نہیں کررہا تو  جج شوہرکوعدالت میں حاضر ہونے کاسمن جاری کرے  ، اگر شوہر عدالت میں حاضر ہوکر گھر بسانے پر آمادہ  ہوجائے تو ٹھیک،لیکن  اگر وہ عدالت میں حاضر نہ ہو یا حاضر ہو لیکن حقوق کی ادائیگی پر راضی نہ ہو تو عدالت نکاح فسخ کردے، جس کے بعد  عورت اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"الخلع جائز عند السلطان و غیرہ لانہ عقد یعتمد التراضی کسائر العقود و ھو بمنزلۃ الطلاق بعوض و للزوج ولایۃ ایقاء الطلاق و لھا ولایۃ التزام العوض۔"

(کتاب الطلاق ،باب الخلع، ج:6، ص:173،ط:السعادۃ )

بدائع الصنائع میں ہے:

"و أمّا ركنه فهو الإيجاب و القبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرْقة و لايستحَق العوض بدون القَبول."

(کتاب الطلاق،فصل فی الخلع,ج:3،ص:145،ط:دارالکتاب العربی)

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الانفاق  ففی مجموع الامیر ما نصہ : ان منعھا   نفقۃ الحال فلہا القیام فان لم   یثبت عسرہ  انفق او طلق  و الا طلق علیہ  ، قال محشیہ : قولہ   والا طلق علیہ ای   طلق علیہ الحاکم من غیر تلوم…..الی ان قال: وان تطوع بالنفقۃ قریب اواجنبی فقال ابن القاسم:لہا ان تفارق  لان الفراق قد وجب لہا،  وقال ابن عبدالرحمن:  لا مقال لہا لان سبب الفراق  ہو عدم النفقۃ   قد انتہی وہو الذی   تقضیہ المدونۃ  کما قال ابن المناصب   ، انظر الحطاب، انتہی۔"

(حیلہ ناجزہ ص: 73،      فصل  فی حکم     زوجۃ المتعنت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں