بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر پڑھنے کے بعد عشاء کی نماز دہرانے کی صورت میں وتر کا حکم


سوال

اگر  امام  صاحب نےعشاء  کی نماز پڑھائی،  وتر پڑھنے کے بعد امام صاحب نے اعلان کیا میرا وضو نہیں تھا؛ لہذا نماز لوٹائی جاۓ۔ اب فرض تو  لوٹائیں گے جو امام کی اقتدا میں ادا کیے، لیکن اس صورت میں وتر کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

عشاء اور  وتر کا وقت غروبِِ شفق سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق تک رہتا ہے، البتہ وتر کو عشاء سے پہلے اس لیے نہیں پڑھا جاتا کہ عشاء اور وتر میں ترتیب واجب ہے، اس لیے نہیں کہ وتر کا وقت عشاء کے بعد شروع ہوتا ہے۔ صورتِ مسئولہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک وتر کی نماز صحیح ہے، صرف عشاء کی نماز لوٹائیں گے، اس لیے کہ مذکورہ عذر  کی وجہ سے ترتیب ساقط ہوگئی اور  وتر اپنے وقت میں ادا کی گئی ہے، لہٰذا لوٹانے کی ضرورت نہیں۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"و وقت العشاء والوتر من غروب الشفق إلى الصبح. كذا في الكافي.  ولايقدم الوتر على العشاء لوجوب الترتيب لا لأن وقت الوتر لم يدخل حتى لو صلى الوتر قبل العشاء ناسيا أو صلاهما فظهر فساد العشاء دون الوتر فإنه يصح الوتر ويعيد العشاء وحدها عند أبي حنيفة - رحمه الله -؛ لأن الترتيب يسقط بمثل هذا العذر."

(الباب الأول في مواقيت الصلاة وما يتصل بها، ج:1، ص:51، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200471

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں