بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وضو کے بعد پیشاب کی نالی سے کچھ خارج ہوتا ہوا محسوس ہونا


سوال

جب  وضو کرتا ہوں تو تقریبًا 10یا 15 منٹ بعد مجھے شک ہوتا ہے  اور چھو ٹے پیشاب والی جگہ سے کچھ خارج ہونا محسوس ہوتا ہے، یہاں علما سے پو چھا ہے  وہ کہتے ہیں کہ وضو نہیں ٹوٹتا۔

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  وضو کے بعد   پیشاب کی نالی کے بالکل آخری سرے پر  پیشاب کا قطرہ اگر یقینی طور پر  ظاہر ہوجائے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اگر  پیشاب کے قطرے سوراخ سے باہر ظاہر نہ ہوں، بلکہ صرف نالی کی اندرونی جانب تر ہو یا محض اس کا وسوسہ آتا ہو  تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے، اس لیے اگر پیشاب کی نالی کے سرے پر پیشاب کا قطرہ نظر نہ آرہا ہو تو  پھر  بہ  تکلف  پیشاب  کی نالی  میں تری کو چیک کرنے کی ضرورت نہیں ہے،  لہذا  ایک مرتبہ اچھی طرح اطمینان کرنے کے بعد شک میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، وضو کرکے نماز ادا کرلیں، اور  شک  کے ازالہ  کا  علاج  یہ  ہے کہ وضو سے فارغ ہو کر اپنا ہاتھ تر کر کے اپنی رمالی پر چھینٹے مار لیا کریں، ان شاء اللہ شک  سے  خلاصی نصیب   ہوگی۔

نیز ایسی صورت میں کوشش کریں  کہ نماز کے بعد  یا نماز کے وقت سے کافی پہلے پیشاب کرنے کی عادت بنالیں؛ تاکہ اگر  بعد میں کوئی قطرہ  وغیرہ  نکل بھی  جائے تو  نماز کے وقت پاکی حاصل کرکے اطمینان سے وضو کرکے نماز  پڑھ سکیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 135):

"ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة.  (قوله: مجرد الظهور) من إضافة الصفة إلى الموصوف: أي الظهور المجرد عن السيلان، فلو نزل البول إلى قصبة الذكر لاينقض لعدم ظهوره، بخلاف القلفة فإنه بنزوله إليها ينقض الوضوء، وعدم وجوب غسلها للحرج، لا لأنها في حكم الباطن كما قاله الكمال ط".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 148):

"(كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل وإن متسفلة عنه لاينقض، وكذا الحكم في الدبر والفرج الداخل (وإن ابتل) الطرف (الداخل لا) ينقض ولو سقطت؛ فإن رطبه انتقض، وإلا لا.  (قوله: إحليله) بكسر الهمزة مجرى البول من الذكر بحر (قوله: هذا) أي النقض بما ذكر، ومراده بيان المراد من الطرف الظاهر بأنه ما كان عالياً عن رأس الإحليل أو مساوياً له: أي ما كان خارجاً من رأسه زائداً عليه أو محاذياً لرأسه لتحقق خروج النجس بابتلاله؛ بخلاف ما إذا ابتل الطرف وكان متسفلاً عن رأس الإحليل أي غائباً فيه لم يحاذه ولم يعل فوقه، فإن ابتلاله غير ناقض إذا لم يوجد خروج فهو كابتلال الطرف الآخر.الذي في داخل القصبة (قوله: والفرج الداخل) أما لو احتشت في الفرج الخارج فابتل داخل الحشو انتقض، سواء نفذ البلل إلى خارج الحشو أو لا للتيقن بالخروج من الفرج الداخل وهو المعتبر في الانتقاض لأن الفرج الخارج بمنزلة القلفة، فكما ينتقض بما يخرج من قصبة الذكر إليها وإن لم يخرج منها كذلك بما يخرج من الفرج الداخل إلى الفرج الخارج وإن لم يخرج من الخارج اهـ شرح المنية (قوله: لاينقض) لعدم الخروج (قوله: ولو سقطت إلخ) أي لو خرجت القطنة من الإحليل رطبة انتقض لخروج النجاسة وإن قلت، وإن لم تكن رطبة أي ليس بها أثر للنجاسة أصلاً فلا نقض".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200740

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں