زید ایک ڈاکٹر ہے، اس کا وطن اصلی ژوب ہے، جہاں اب بھی اس کے والد اور بھائی رہتے ہیں، لیکن زید کی بیوی عارضی طور پر تعلیم کی غرض سے کوئٹہ میں مقیم ہے، زید کا کلینک ہرنائی میں ہے ، وہیں اس نے رہائش اختیار کی ہوئی ہے، زید کی زمینیں اور باغات خاران میں ہیں ، ان چاروں علاقوں (ژوب، کوئٹہ ،ہرنائی اور خاران) میں سے ہر ایک کا دوسرے علاقے سے سو کلومیٹر سے زیادہ کی مسافت ہے، زید ان چاروں علاقوں میں جاتا رہتا ہے۔
ہرنائی میں کلینک کی وجہ سے مستقل رہائش ہے، پندرہ دن سے زیادہ رہتا ہے، کوئٹہ اور خاران میں صرف چار پانچ دن کے لیے جاتا ہے، کوئٹہ اور خاران میں کبھی پندرہ دن یا اس سے زیادہ عرصہ قیام نہیں کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان علاقوں میں سے کون سا علاقہ زید کے لیے وطنِ اقامت ہے اور کون سا وطن سفر ہے؟
1۔صورتِ مسئولہ میں ژوب زید کا وطن اصلی ہے،اس لیے زید جب بھی اور جتنے دن کے لیے بھی ژوب جائے گا تو وہاں مکمل نماز پڑھے گا۔
2۔ہرنائی میں پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنے کی وجہ سے ہرنائی زید کا وطنِ اقامت بن چکا ہے، اب جب تک ہرنائی میں زید کی رہائش گاہ موجود رہے اور اس میں زید کا سامان رکھا رہے ،اس وقت تک ہرنائی زید کے لیے وطن اقامت رہے گا اور کسی دوسری جگہ عارضی طور پر سفر میں جانے سے یہ وطنِ اقامت باطل نہیں ہوگا، لیکن اگر کسی وقت زید ہرنائی سے اپنی رہائش ختم کر کے ہرنائی کو چھوڑ کر چلا گیا تو پھر یہ وطنِ اقامت باطل ہوجائے گا۔
3۔زید نے چوں کہ ابھی تک ایک مرتبہ بھی کوئٹہ میں پندرہ دن نہیں گزارے ہیں ،اس لیے اگرچہ زید کی بیوی عارضی طور پر کوئٹہ میں مقیم ہے ،تب بھی کوئٹہ زید کے لیے وطنِ اقامت نہیں ہے، بلکہ وطنِ سکنیٰ ہوگا، اور زید وہاں مسافر شمار ہوگا۔
4۔خاران جہاں زید کی زمینیں اور باغات ہیں اور زید وہاں صرف چار پانچ دن کے لیے جاتا ہے ،وہ بھی زید کے لیے وطنِ اقامت نہیں ہے، بلکہ وطنِ سکنیٰ ہے، وہاں بھی زید مسافر شمار ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله: والأصل أن الشيء يبطل بمثله) كما يبطل الوطن الأصلي بالوطن الأصلي، و وطن الإقامة بوطن الإقامة، و وطن السكنى بوطن السكنى."
(کتاب الصلاۃ ،باب صلاۃ المسافر،2/ 132،ط،سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا دخل المسافر مصره أتم الصلاة وإن لم ينو الإقامة فيه سواء دخله بنية الاختيار أو دخله لقضاء الحاجة، كذا في الجوهرة النيرة."
(کتاب الصلوٰۃ،باب فی صلاۃ المسافر142/1،ط رشیدیہ)
البحرالرائق میں ہے:
"(قوله ويبطل الوطن الأصلي بمثله لا السفر ووطن الإقامة بمثله والسفر والأصلي) ؛ لأن الشيء يبطل بما هو مثله لا بما هو دونه فلا يصلح مبطلا له وروي أن عثمان رضي الله عنه كان حاجا يصلي بعرفات أربعا فاتبعوه فاعتذر، وقال: إني تأهلت بمكة وقال النبي صلى الله عليه وسلم «من تأهل ببلدة فهو منها» والوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها وهذا الوطن يبطل بمثله لا غير، وهو أن يتوطن في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا حتى لو دخله مسافرا لا يتم قيدنا بكونه انتقل عن الأول بأهله؛ لأنه لو لم ينتقل بهم، ولكنه استحدث أهلا في بلدة أخرى فإن الأول لم يبطل ويتم فيهما وقيد بقوله بمثله؛ لأنه لو باع داره ونقل عياله وخرج يريد أن يتوطن بلدة أخرى ثم بدا له أن لا يتوطن ما قصده أولا ويتوطن بلدة غيرها فمر ببلده الأول فإنه يصلي أربعا؛ لأنه لم يتوطن غيره، وفي المحيط، ولو كان له أهل بالكوفة، وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة قيل البصرة لا تبقى وطنا له؛ لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له، وقيل تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر. وفي المجتبى: نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار، ثم قال: وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم، فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر."
(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:2، ص:147، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100645
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن