بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

واقف کی اجازت کے بغیر مسجد کی نئی انتظامیہ رجسٹر کروانے کا حکم


سوال

ہمارے محلہ میں ایک مسجد ہے جو کہ پہلے ایک صاحب کا گھر تھا اور 2010 میں انہوں نے اپنے اس گھر کو مسجد کے لیے وقف کیا تھا   اور یہ وقف زبانی تھا،  مکان کے کاغذات آج تک  ان کے ہی نام پر ہیں ، اور وہ خود ملک سے باہر تھے اور انہوں نے  اس مسجد کی جو انتظامیہ رجسٹر ڈ کرائی اس میں تمام افراد اپنے گھر ہی کے رکھے اس لیے کہ وہ خود متولی،  خود واقف اور مسجد کے تمام تر اخراجات بھی برداشت کر رہے تھے،  اور یہ مسجد کبھی بھی نہ مالی طور پر متاثر ہوئی اور نہ ہی کبھی چندہ کے اعلان کی نوبت آئی، اپنی انتظامیہ میں انہوں نے صرف ایک فرد اسی علاقہ کالیا تا کہ وہ ان کے ساتھ نظم ونسق میں معاون ہو۔ گزشتہ دو سال سے اہل محلہ کو ان متولی پر اعتراض تھا ، ان اعتراض کی تفصیل درج ذیل ہے: واش روم درست نہ کر انا، پوری مسجد میں کلر نہ کروانا، ہر کام میں مداخلت کرنا، مدرسہ میں بچوں کی تعداد نہ بڑھانے دینا، مسجد میں ہر جگہ حتی کہ کمروں کے اندر  کیمرے لگانا وغیرہ وغیرہ۔

لہٰذ اہل محلہ نے ان کی اجازت کے بغیر اور ان کو بتاۓ بغیر مسجد کی نئی انتظامیہ بنالی، اور یہ بات ان کے علم میں آرہی تھی کہ اہلِ محلہ اپنی انتظامیہ بنارہے ہیں جس پر انہوں نے یہ پیغام بھی بھیجا کہ وہ اپنی انتظامیہ نہ بنائیں اور آخر میں ایک صاحب نے ان کوبتا بھی دیا تھا کہ اب محلہ والوں کی انتظامیہ بن گئی ہے ( پہلے جو انہوں نے انتظامیہ بنائی تھی اس کو 3 سال سے زائد عرصہ ہو چکا تھا،  اور ہر 3 سال میں مسجد کی انتظامیہ کی تجدید ہوتی ہے،  یہ بات ان کے علم میں نہیں تھی وہ یہ سمجھتے تھے کہ اب شاید ہماری کمیٹی تاحیات ہے لیکن اہل محلہ کو اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ 3 سال ہو چکے ہیں لہٰذا ہم اب ہم اپنی نئی کمیٹی بنا لیتے ہیں) اور بعد میں اہل محلہ نے متولی تک پیغام بھیجا کہ ہم نے نئی انتظامیہ رجسٹر ڈ کر لی ہے،  اور اس نئی کمیٹی پر وہ متولی راضی نہیں تھے اور نہ اب ہیں، متولی نے آخر میں اہل محلہ سے کہہ بھی دیا تھا کہ اب نئی انتظامیہ رجسٹر ڈ نہ کر یں بلکہ آپ جس طرح چاہتے ہیں اپنا کام کرتے رہیں ، ہم آپ کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے،  انتظامیہ میں ہمارے افراد ہی  رہنے دیں،  لیکن اہلِ محلہ نئی انتظامیہ رجسٹر ڈ کر چکے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ متولی کی اجازت کے بغیر ہم اہل محلہ کا نئی کمیٹی رجسٹر ڈ کر ناشر عادرست ہے یا نہیں؟ براۓ کرم اس میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ اگر مسجد کا بانی و واقف موجود ہے توسب سے پہلےمتولی بننے کا حق دار وہ خود ہوتا ہے، اور اگر کسی اور کو متولی بنانا ہو، یا مسجد کے لیے انتظامیہ بنانی ہو تو اس کا اختیار بھی اولاً واقف اور بانی کو ہے، اس کی اجازت کے بغیر  کسی اور کو متولی مقرر کرنا یا نئی  انتظامیہ بنانا شرعاً جائز نہیں، البتہ اگر واقف نا اہل ہو یا اس  کی جانب سے مسجد كے انتظام ميں  خیانت کی گئی ہو تو   صرف اس صورت میں قاضی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ اس کی جگہ کسی اور کو متولی مقرر کردے، لیکن چوں کہ صورتِ مسئولہ میں واقف   نے آخر میں اہلِ محلہ  کو اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ کسی کام میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے؛ لہٰذا  مسجد کے انتظام اور تولیت کے وہی حق دار ہیں، اور اہلِ محلہ نے واقف کی اجازت کے بغیر جو انتظامیہ رجسٹر کروا لی تھی ایسا کرنا شرعاً درست نہیں تھا ، اب ان کے ذمہ لازم ہے کہ اس  رجسٹری کو ختم کروائیں اور مسجد کے واقف کو  ہی مسجد کا انتظام سنبھالنے دیں، اور مسجد کا انتظام چلانے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہیں۔ مسجد اللہ کا گھر ہے ، ہر ایک اس کی خدمت کا جذبہ رکھے، اسے اپنی ذاتی ملکیت نہ سمجھا جائے۔

الفتاویٰ العالمگیریہ میں ہے:

"رجل ‌بنى ‌مسجدا وجعله لله تعالى فهو أحق الناس بمرمته وعمارته وبسط البواري والحصر والقناديل، والأذان والإقامة والإمامة إن كان أهلا لذلك فإن لم يكن فالرأي في ذلك إليه. كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصلاة، الباب الثامن في الوتر، ج:1، ص:110، ط: دار الفكر)

رد المحتار میں ہے:

"(وينزع) وجوبا بزازية (لو) الواقف درر فغيره بالأولى (غير مأمون) أو عاجزا أو ظهر به فسق كشرب خمر ونحوه فتح أو كان يصرف ماله في الكيمياء نهر بحثا (وإن شرط عدم نزعه) أو أن لا ينزعه قاض ولا سلطان لمخالفته لحكم الشرع فيبطل كالوصي، فلو  مأمونا لم تصح تولية غيره أشباه."

(كتاب الوقف، ج:4، ص:380-381-382، ط:ايچ ايم سعيد)

تقریرات رافعی میں ہے:

"الذي حققه السندي بعبارة طويلة: ( أن الوصي أو  المتولي المنصوب من الواقف أو القاضي لو لم يتحقق من أحدهما خيانة، و أراد من عدا قاضي القضاة عزله، و إقامة غيره مقامه ممن هو أصلح منه و أورع فليس له ذلك، ولا يتولي ذلك إلا قاضي القضاة)."

(كتاب الوقف، ج:13، ص:499،ط: دار الثقافة و التراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101480

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں