بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے علاوہ کے لیے اذان کا حکم


سوال

بغیر وقت کے اذان دے سکتے ہیں؟

جواب

شریعتِ مطہرہ نے  دن رات کی پانچ نمازوں ،اور جمعہ کی نماز  کے لیے اذان سنت قرار دی ہے،نماز  کے لیے جب اذان دی جائے تو ضروری ہے ،کہ اذان نماز کے وقت داخل ہونے کے بعد دی  جائے ،وقت داخل ہونے سے پہلے  اذان دینے  سے اذان کی سنت  ادا نہیں ہو گی ، وقت کے داخل ہونے کے بعد  اذان کا اعادہ کرنا ہو گا، البتہ نماز  کے علاوہ بعض اور مواقع پر   اذان دینا  شرعاًمستحب ہے، جس کو علامہ شامی رحمہ اللہ نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔مثلاً:نو مولود بچے  کے کان میں اذان دینا،غم زدہ شخص کے کان میں اذان دینا،مرگی کا دورہ  پڑنے  والے شخص کے کان میں اذان دینا،سخت غصہ  والے شخص کے کان میں اذان دینا،انسان  کے اخلاق بگڑ جائے یا جانور بدک جائے تو اس کے کان میں اذان دینا،مجاہدین کے لشکر  کا کفار کے لشکر کے ساتھ مڈبھیڑ کے وقت اذان دینا،آگ لگنے کے وقت  اذان دینا،جنات  کی شرارت کرنے کے وقت اذان دینا،صحرا ء میں راستہ گم ہو جانے کے وقت  ان مواقع پر  اذان دینے کے لیے  وقت کی پابندی نہیں ہے۔

فتح القدير میں ہے:

"(الأذان سنة للصلوات الخمس والجمعة دون ما سواها) للنقل المتواتر"۔

(كتاب الصلاة، باب الأذان، ج:1، ص:240، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لا يسن لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل وعند إنزال الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان: أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه. أقول: ولا بعد فيه عندنا. اهـ. أي لأن ما صح فيه الخبر بلا معارض فهو مذهب للمجتهد وإن لم ينص عليه، لما قدمناه في الخطبة عن الحافظ ابن عبد البر والعارف الشعراني عن كل من الأئمة الأربعة أنه قال: إذا صح الحديث فهو مذهبي، على أنه في فضائل الأعمال يجوز العمل بالحديث الضعيف كما مر أول كتاب الطهارة، هذا، وزاد ابن حجر في التحفة الأذان والإقامة خلف المسافر. قال المدني: أقول وزاد في شرعة الإسلام لمن ضل الطريق في أرض قفر: أي خالية من الناس. وقال المنلا علي في شرح المشكاة قالوا: يسن للمهموم أن يأمر غيره أن يؤذن في أذانه فإنه يزيل الهم، كذا عن علي رضي الله عنه ونقل الأحاديث الواردة في ذلك فراجعه. اهـ"۔

(کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ج:1، ص:385، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101294

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں