بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف عید گاہ کی زمین پر مدرسہ بنانا


سوال

واقف نے دیہات میں  عید گاہ وقف کی،اب دیہات شہر میں تبدیل ہو گیا،کیا اس عید گاہ پر مدرسہ بنانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ   جب کوئی زمین  مسجد،مدرسہ یا  عید گاہ وغیرہ  کے لیے وقف کی جائے،اور اس کو متولی یا ذمہ داران کے حوالہ کیا جائے ، تو وہ واقف کی ملک سے نکل  کر اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے ، اور جب وقف  تام  ہو جاتا ہے تو پھر اس میں  شرعاً کسی قسم کی تبدیلی کرنے کی اجازت نہیں ہے، خود واقف کو بھی اس میں  تبدیلی  کرنے کی اجازت نہیں ہے ،ہاں اگر واقف نے وقف کرتے وقت    اس  کی جہت میں تبدیلی  کرنے کی  شرط لگائی ہو تو  اس صورت میں    جہتِ وقف میں تبدیلی  کرنا جائز ہے ۔

صورتِ مسؤلہ میں اگر واقف  نے  وقف کرتے وقت جہتِ وقف  کی    تبدیلی کی شرط لگائی تھی  ،اور اب وہاں پر عید گاہ  کی ضرورت نہیں ہے ،تو  مذکورہ زمین پر  مدرسہ بنانا جائزہے ،اور اگر  واقف نے وقف  کرتے وقت  جہت کی تبدیلی کی شرط نہیں لگائی تھی ،تو  پھر  مذکورہ جگہ پر   مدرسہ بنانا جائز نہیں ہے۔

الفقه الاسلامي وادلته  میں ہے:

"إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته."

(الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي،ج:10،ص7617،ط:دارالفکر ،دمشق)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله وإذا صح الوقف) أي لزم، وهذا يؤيد ما قدمناه في قول القدوري وإذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف. ثم قوله (لم يجز بيعه ولا تمليكه) هو."

(فتح القدیر ،ج:6،ص:220،ط:دارالفكر ،لبنان بإجماع الفقهاء)

فتاوی شامی میں ہے:

"اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال، وأطنب فيها عليه الاستدلال وهو مأخوذ من الفتح أيضا كما سنذكره عند قول الشارح لا يجوز استبدال العامر إلا في أربع ويأتي بقية شروط الجواز،وأفاد صاحب البحر في رسالته في الاستبدال أن الخلاف في الثالث، إنما هو في الأرض إذا ضعفت عن الاستغلال بخلاف الدار إذا ضعفت بخراب بعضها، ولم تذهب أصلا فإنه لا يجوز حينئذ الاستبدال على كل الأقوال."

(ردالمحتار،ج:4،ص:384،385، ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101335

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں