بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کی وصیت پر طلاق کا حکم


سوال

میں نے دوسری شادی خاندان میں بتائےبغیر کی تھی، میری والدہ کا گزشتہ دنوں انتقال ہوا،  میں نے ان کی وصیت پڑھی تو اس میں میری دوسری اہلیہ کے نام کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ اگر تم نے فلاں سے شادی کی ہو تو میری وصیت ہے کہ اس کو طلاق دو، ورنہ آخرت میں جواب دہ ہو گے۔ از راہِ کرم مجھے بتائیں کہ کیا میرے لیے اس وصیت پر عمل کرنا ضروری ہے؟ اور اگر عمل نہیں کیا تو کیا واقعی میں جواب دہ ہوں گا؟ کیا کوئی ایسی صورت ہے کہ وصیت پر عمل بھی ہو جائے اور طلاق کی نو بت بھی نہ آئے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں والدہ نے وصیت نامہ میں جو طلاق دینے کا حکم دیا ہے یہ اگر کسی شرعی عذر کی وجہ سے ہو کہ عورت بد اخلاق، بد چلن ہو ، وغیرہ وغیرہ تو اس صورت میں بیٹے کو  چاہیے کہ والدہ کی وصیت پر عمل کرے، اور اگر بیوی میں ایسی کوئی بات نہیں تو اس صورت میں والدہ کی وصیت پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے؛ کیوں کہ حلال کاموں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ  بات طلاق دینا ہے، اس لیے حتی الامکان انتہائی سخت مجبوری کے بغیر طلاق دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اور والدہ کے لیے توبہ استغفار کرے۔ 

اس صورت میں والدہ کی وصیت نہ مان کر ان شاء اللہ یہ شخص آ خرت میں جواب دہ نہیں ہوگا؛ کیوں کہ جس طرح  اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اسی طرح اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 132):
"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك

 (ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( «وإن أمراك أن تخرج من أهلك» ) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله".

سنن أبي داود ت الأرنؤوط (3/ 505):
"عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق".

المعجم الكبير للطبراني (18/ 170):
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق»". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110201357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں