بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کیلئے ایصال ثواب کس طرح کیا جائے؟


سوال

کیا میں اپنی امی کے نام کا عمرہ ادا کر سکتی ہوں؟ اور کیسے میں اپنی مرحوم امی کے لیے ایصال  ثواب کا ذریعہ بنوں؟

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت، ذکر و اذکار نفل نماز، روزہ، طواف، عمرہ و حج، قربانی، نیز غرباء ومساکین پر صدقہ خیرات کرکے مرحومین کو ثواب پہنچایا جا سکتا ہے،  اور  مرحومین تک نہ صرف  اس کا  ثواب پہنچتاہے،  بلکہ  پڑھنے والوں یا صدقہ کرنے والوں کو بھی برابر ثواب ملتا ہے، اور کسی کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے۔

لہذا آپ اپنی والدہ کو  ثواب پہنچانے کے لیے عمرہ یا  ان اعمال میں سے جو   بھی چاہیں عمل کرسکتی ہیں۔  بہتر ہے کہ ان کی طرف سے ایسا صدقہ یا نیک عمل کیا جائے جس کا اجر جاری رہے، مثلًا ان کے ایصالِ ثواب کے لیے کنواں کھدوا دیں، مسجد یا مدرسے کی تعمیر میں  حصہ لے لیں، مسجد یا مدرسے میں قرآن شریف یا دینی کتابیں وقف کردیں، یا پھل دار سایہ دار درخت لگادیں، وغیرہ وغیرہ۔

ذیل میں کچھ احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن میں  والدین کی طرف سے ایصالِ ثواب کے لیے مختلف چیزوں کا تذکرہ آیا ہے:

1- حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، ان کے لیے کیا  صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: پانی،  انہوں نے ایک کنواں کھدوایا، اور  کہا: "یہ  (کنواں) سعد کی والدہ کے لیے ہے"۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"و عن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء» . فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي."

(مشكاة المصابيح،كتاب النكاح، باب الصداق، الفصل الأول،1/ 597، الناشر: دار الفكر، بيروت)

اس حدیث میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے والدہ کے لیے پانی کے صدقہ کا ثواب پہنچانے کا ذکر فرمایا۔

2- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا : میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے اپنے پیچھے مال چھوڑا ہے، لیکن کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کردوں، کیا ان کے گناہوں کے لیے معافی کا ذریعہ ہوجائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا: ہاں! تمہارے صدقات سے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، أنّ رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أبي مات وترك مالاً، ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: «نعم»."

(صحيح مسلم،كتاب السنن والأحكام عن المصطفى عليه أفضل الصلاة والسلام - باب في الصدقة على الميت، الفصل الاول، 3/ 1254، ط: دار احياء التراث العربي)

اس حدیث میں والدین کی طرف سے مطلق صدقے کا ذکر فرمایا ہے۔

3- حضر ت ابواُسید مالک بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس موجود تھے کہ اتنے میں بنو سلمہ کا ایک شخص آیا اور اُس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سےدریافت کیا:یا رسول اللہ! میرے والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوئی صورت ہے، جس کو میں اختیار کروں؟ فرمایا: ہاں! ان کے لیے دُعا و اِستغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نافذ کرنا، ان کے متعلقین سے صلہ رحمی کرنا، اور ان کے دوستوں سے عزّت کے ساتھ پیش آنا۔

سنن أبو داؤد میں ہے:

"عن أسيد بن علي بن عبيد، مولى بني ساعدة عن أبيه، عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاء ه رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما»."

(سنن أبي داود، ابواب النوم، باب في بر الوالدين، 4/ 336،الناشر: المكتبة العصرية )

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے والدین کے لیے دعا، ان کے لیے استغفار وغیرہ کا حکم فرمایا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101773

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں