بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا سب جائیداد بیٹوں میں تقسیم کرنا اور بیٹیوں کو محروم کرنا اور اس کی تلافی کا طریقہ


سوال

اگر کوئی والد اپنی ساری جائیداد فروخت کر کے سارے پیسے اپنے بیٹوں کو دے  دے اور  بیٹیوں کو کچھ بھی نہیں دے تو کیا وہ گناہ گار ہوگا؟  کیوں کہ اس کی اور جائیداد نہیں تھی اور اس نے بیٹیوں اور بیٹوں میں برابر تقسیم نہیں کی تھی، اب 20 سال بعد والد کو احساس ہوا کہ اس نے بیٹیوں کو کچھ نہیں دیا اور بیٹوں کو سارا پیسہ دےدیا تو کیا وہ والد  اپنے بیٹوں سے وہ پیسے واپس مانگ سکتا ہے جو اس نے اپنے بیٹوں کو  دیے تھے اور اگر بیٹے وہ پیسے واپس کر دیں اور والد اپنی اولاد بیٹیوں اور بیٹیوں میں برابر تقسیم کردے تو کیا وہ گناہ گار ہونے سے بچ جائے گا؛ کیوں کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی کوئی اور جائیداد نہیں ہوگی جو وراثت میں تقسیم ہو ؟

اگر بیٹے والد کے پیسے واپس نہیں کرتے جب کہ بیٹوں کے پاس پیسے ہوں بھی، لیکن وہ والد کو  نہ دیں تو پھر گناہ گار کون ہوگا بیٹے یا باپ؟  اگر بیٹے پیسے واپس کریں تو جو رقم 20 سال پہلے والد نے دی تھی وہ واپس ہو گی یا ان کو زیادہ پیسے دینے ہوں گے، جب کہ اس پیسے سے بیٹوں نے مکان خریدا اور اب وہ مکان بہت مہنگا ہے، اگر باپ کے انتقال کے بعد بیٹے وہ پیسے جو والد نے انہیں دیے تھے وارثت سمجھ کر بہنوں اور والدہ کو ان کا حصہ دے دیں تو کیا ان کے والد گناہ گار ہونے سے بچ جائیں گے؟ رقم کون سی تقسیم ہوگی جو والد نے دی تھی یا جتنے کا مکان فروخت ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ  ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز والد کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا،  تاہم   اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا سے   اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلامًا، فقال: «أكلّ ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه». وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»". (مشکوٰۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط؛ قدیمی)

ترجمہ:

حضرت نعمان ابن بشیرؓ  کے بارے  منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں  رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط؛ دارالاشاعت)

  اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے  اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔

        البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بنسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت ودِین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بنسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد نے اپنی تمام جائیداد اپنے بیٹوں کو دے کر بلاکسی وجہ اپنی بیٹیوں کو محروم کیا تو  ان کا یہ عمل درست نہیں تھا، والد کا صرف بیٹوں کو دینا اور بیٹیوں  کو محروم رکھنا  ہرگز جائز نہیں  تھا ، شرعی اعتبار سے یہ تقسیم غیر منصفانہ ہے۔

لیکن  اس کے باوجود اگر آپ کے والد نے  اپنی جائیداد اور پیسے  اپنے  بیٹوں کے درمیان  تقسیم کردیے  اور بیٹوں کو اس کا قبضہ بھی دے دیا تو شرعاً   یہ ہبہ(گفٹ) مکمل ہوگیا ، اور بیٹے اس کے مالک بن گئے ہیں۔ اب والد ان کی رضامندی کے بغیر ان سے وہ رقم واپس نہیں لے سکتے۔

 اب اس کی تلافی کی صورت یہ ہے والد  بیٹیوں کو بھی بیٹوں کے بقدر حصہ دے دے؛ تاکہ آخرت میں پریشانی نہ ہو ، اور والد کے پاس اگر کچھ اور جائیداد نہ ہو تو بیٹوں کو چاہیے کہ والد کو اس گناہ سے بچانے کے لیے وہ بہنوں کو بھی حصہ دے دیں  اور آپس میں معافی تلافی کرلیں؛ تاکہ کسی کو بھی آخرت میں پریشانی کا سامنا نہ ہو ۔  چوں کہ اس صورت میں  اس رقم کے مالک بیٹے بن گئے تھے؛ اس لیے اب ان سے موجودہ ویلیو کے اعتبار سے رقم کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا، البتہ اگر وہ خوشی سے دے دیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔

اگر بیٹے ابھی پیسے نہیں دیتے اور والد کے پاس بھی جائیداد نہیں ہے، اور والد کے انتقال کے بعد بیٹے اپنی بہنوں کو اس جائیداد میں سے (اسے میراث سمجھتے ہوئے) بہنوں کا حصہ دے دیتے ہیں اور بہنیں راضی ہوجاتی ہیں تو امید ہے کہ اس صورت میں والد اُخروی مواخذے سے بچ جائیں۔

اور اگر والد  نے جائیداد  یا  رقم بیٹوں کو باقاعدہ ہبہ نہیں کی اور نہ ہی  بیٹوں کو قبضہ دیا تو اس صورت میں آپ کے والد ہی ان جائیدادوں کے  بدستور مالک ہیں۔

       شرح المجلۃ میں ہے:

"لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي". (1/264،  مادۃ: 97، ط: رشیدیہ)

         فتاوی شامی میں ہے: 

"وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة؛ لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى". (5/696، کتاب الھبۃ، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين ". (7/288، کتاب الھبۃ، ط: رشیدیہ)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية". (4/378،  الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ)

وفیہ ایضا:

"ليس له حق الرجوع بعد التسليم في ذي الرحم المحرم وفيما سوى ذلك له حق الرجوع إلا أن بعد التسليم لاينفرد الواهب بالرجوع، بل يحتاج فيه إلى القضاء أو الرضا أو قبل التسليم". (4/385، الباب الخامس فی الرجوع فی الھبۃ ،  ط: رشیدیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201163

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں