بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے حق تلفی کرنے کی صورت میں اولاد کیا کرے؟


سوال

اگر باپ کے سارے حقوق پورے کریں اور بدلے میں باپ اپنے سارے فیصلہ زبردستی کرے اور یہاں تک کہ  جب سے پیدا ہوۓ، گلے تک نہیں لگایا تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں اس سلسلے میں دوطرفہ حقوق (اولاد کے والدین پر اور والدین کے اولاد پر دونوں) کی حدود واضح کر دی گئی ہیں۔ قرآنِ کریم میں خدا تعالی نے والدین کی اطاعت کے ضروری ہونے کو توحید جیسے اہم عقیدے کے ساتھ ذکر کرکے اس کی اہمیت بتلادی ہے۔ اولاد کے ذمے لازم ہے کہ والدین کے شریعت کے موافق ہر حکم کو بجالائے۔ والدین کے ذمے بھی لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد میں ہر ممکن حد تک برابری اور انصاف کریں، اپنی اولاد کی خوشیوں کا خیال رکھیں، انہیں ان کی جائز ضروریات  اور معاملات سے محروم نہ رکھیں، اور ان پر بے جا ظلم و زیادتی سے ہر طرح گریز کریں۔

لہذا اگر کوئی شخص اپنے والدین کے ساتھ  حُسنِ سلوک کرتاہے اور ان کی خدمت و اطاعت بجالاتا ہے، اس صورت میں والدین کو بھی اولاد کی ضروریات کا خیال رکھناچاہیے، اگر والدین بے جا  ناراضی کا اظہار کرتے ہیں اور جائز معاملات میں بھی روک ٹوک کرتے ہیں تو اس کی وجہ سےان شاء اللہ  اولاد کا مواخذہ نہیں  ہوگا۔ تاہم اس صورت میں بھی والدین کا احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے،اور انہیں شرعی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے حکمت و مصلحت کے ساتھ سمجھانا چاہیے، اور والدین جب غصہ ہوں تو ان کے سامنے جواب نہ دیں، انہیں جھڑکیں نہیں، بلکہ ادب سے ان کی بات سنیں، اور ان کے حق میں وہ دعا کرتے رہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سکھائی ہے:

{رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیَانِيْ صَغِیْرًا}

یعنی اے میرے رب! ان دونوں (میرے والدین) پر رحم فرما، جیسے انہوں نے مجھے بچپن میں پالا اور تربیت کی۔ 

اگر شادی شدہ ہیں تو بیوی بچوں کے جداگانہ حقوق ہیں اور والدین کے مستقل حقوق ہیں، کسی ایک کی ادائیگی کی وجہ سے دوسرے کی حق تلفی درست نہیں ہے، اس لیے جہاں والدین کے حقوق (خدمت و راحت رسانی اور ادب و احترام) کی ادائیگی کی حتی الوسع کوشش کرتے رہنا چاہیے، اسی طرح بیوی اور اولاد کے حقوق ادا  کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر انسان ہمت کرے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مانگتا رہے تو دونوں (والدین اور بیوی بچوں) کے حقوق ادا کرنا آسان ہوجاتاہے۔

اگر کبھی والدین سے زیادتی ہو تو یہ سوچیں کہ بچپن میں ہم نے والدین کو کتنا تنگ کیا، ہم بھی بے جا غصہ ہوتے تھے، بے وقوفی کی باتیں کرتے تھے، ایک ہی سوال کئی کئی مرتبہ کیا کرتے تھے، لیکن والدین بڑی محبت سے جواب دیتے تھے اور ہمیں سمجھاتے تھے، وہ غصہ نہیں ہوتے تھے، یہی بات بیوی کو بھی سمجھائیں کہ آج یہ بوڑھے ہیں کل ہماری یہ حالت ہوجائے اور ہماری اولاد ہمارے ساتھ سخت رویہ رکھے تو ہمیں کیسا محسوس ہوگا؟! اور بچوں کے دل میں بھی دادا دادی کی محبت اور احترام بٹھائیں۔ اور والدین کے مطالبات میں سے جس حد تک مطالبات پورے ہوسکتے ہوں اپنے اخراجات اور معمولات میں سے انہیں کم کریں تو اس میں اولاد ہی کی سعادت ہے۔

والدین کی بات کس حد تک ماننی چاہیے؟ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی تحریرنقل کی جاتی ہے امید ہے کہ اس میں آپ کے لیے تشفی بخش جواب موجود ہوگا،ملاحظہ ہو:

’’ ماں باپ کی بات کس حد تک ماننا ضروری ہے؟

ج… والدین کی فرماں برداری اور ان کی خدمت کے بارے میں واقعی بڑی سخت تاکیدیں آئی ہیں، لیکن یہ بات غلط ہے کہ والدین کی ہر جائز و ناجائز بات ماننے کا حکم ہے، بلکہ والدین کی فرماں برداری کی بھی حدود ہیں، میں ان کا خلاصہ ذکر کردیتا ہوں:

اوّل:… والدین خواہ کیسے ہی بُرے ہوں، ان کی بے ادبی و گستاخی نہ کی جائے، تہذیب و متانت کے ساتھ ان کو سمجھا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ سمجھانا ضروری ہے، لیکن لب و لہجہ گستاخانہ نہیں ہونا چاہیے، اور اگر سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

دوم:… اگر وہ کسی جائز بات کا حکم کریں تو اس کی تعمیل ضروری ہے بشرطیکہ آدمی اس کی طاقت بھی رکھتا ہو اور اس سے دُوسروں کے حقوق تلف نہ ہوتے ہوں، اور اگر ان کے حکم کی تعمیل اس کے بس کی بات نہیں یا اس سے دُوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے تو تعمیل ضروری نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جائز نہیں۔

سوم:… اگر والدین کسی ایسی بات کا حکم کریں جو شرعاً ناجائز ہے اور جس سے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، تب بھی ان کے حکم کی تعمیل جائز نہیں، ماں باپ تو ایسا حکم دے کر گناہ گار ہوں گے، اور اولاد ان کے ناجائز حکم کی تعمیل کرکے گناہ گار ہوگی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشادِ گرامی ہے: ’’لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق‘‘  یعنی جس چیز میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو اس میں کسی مخلوق کی فرماں برداری جائز نہیں۔” مثلاً: اگر والدین کہیں کہ: “نماز مت پڑھو، یا دِین کی باتیں مت سیکھو، یا داڑھی مت رکھو، یا نیک لوگوں کے پاس مت بیٹھو  وغیرہ وغیرہ، تو ان کے ایسے اَحکام کی تعمیل جائز نہیں، ورنہ والدین بھی جہنم میں جائیں گے اور اولاد کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔

اگر والدین یہ کہیں کہ: ’’بیوی کو طلاق دے دو‘‘  تو یہ دیکھنا چاہیے کہ بیوی قصوروار ہے یا نہیں؟ اگر بیوی بے قصور ہو تو محض والدین کے کہنے سے طلاق دینا جائز نہیں۔ اگر والدین کہیں کہ: ’’بیوی کو تنہا مکان میں مت رکھو‘‘  تو اس میں بھی ان کی تعمیل روا نہیں۔ البتہ اگر بیوی اپنی خوشی سے والدین کے ساتھ رہنے پر راضی ہو تو دُوسری بات ہے، ورنہ اپنی حیثیت کے مطابق بیوی کو علیحدہ مکان دینا شریعت کا حکم ہے، اور اس کے خلاف کسی کی بات ماننا جائز نہیں۔

چہارم:… والدین اگر ماریں پیٹیں، گالی گلوچ کریں، بُرا بھلا کہیں یا طعن و تشنیع کرتے رہیں، تو ان کی ایذاوٴں کو برداشت کیا جائے اور ان کو اُلٹ کر جواب نہ دیا جائے۔

پنجم:… آپ نے جو لکھا ہے کہ: “اگر والدین کہیں کہ ....اپنی اولاد کو مار ڈالو تو ...اولاد کو مار ڈالنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اور میں لکھ چکا ہوں کہ ناجائز کام میں والدین کی اطاعت جائز نہیں...!"۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل 8/558)

باقی اولاد کی طرف سے والد کے ساتھ حسنِ سلوک اور حقوق کی ادائیگی کے باوجود اگر والد  اولاد کا خیال نہ رکھے، انہیں پیار و محبت نہ دے، یا انہیں ہدایا و تحائف دینے میں برابری نہ کرے یا کسی پر زیادہ غصہ ہوتا ہو، تو ان اَحوال میں بھی اولاد کے لیے والد سے سختی سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، نہ ہی والد کی اِصلاح اولاد کا منصب ہے، ہاں خاندان کے کسی بڑے سے کہہ کر حکمت کے ساتھ ان کی فہمائش کا انتظام کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جیسے دیگر امور کے بارے میں سوال فرمائیں گے اسی طرح اولاد کے حقوق کے بارے میں سوال ہوگا۔ لیکن اولاد خود اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرے، اس سے والد کو تکلیف اور گرانی محسوس ہوگی، قرآنِ پاک میں ہے کہ والدین اگر اولاد کو شرک پر مجبور کریں تو اولاد ان کی اطاعت نہ کرے، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ پھر بھی اچھا سلوک رکھے۔ شرک و کفر سے بڑھ کر کوئی ظلم ہوسکتا ہے؟! اس پر مجبور کرنے کے باوجود والدین کے ساتھ بدسلوکی کی اجازت نہیں ہے تو ذاتی نوعیت کی زیادتیاں اور ظلم تو بہت کم درجے کے ہیں، اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی تعلیم درج ذیل حدیث سے سمجھی جاسکتی ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201057

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں