بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ولی کی اجازت کے بغیر نکاح اور تین سال بعد ولی کا نکاح پر راضی ہونا


سوال

اگر ولی  کی اجازت کے بغیر نکاح ہوجائے اور شادی کے دو تین سال بعد  ولی بھی راضی ہو جائے تو تب بھی نکاح باطل ہوگایا پھر ولی کے راضی ہونے کے بعد نکاح صحیح تصور کیا جائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ اگر عاقلہ بالغہ  لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے،  اگرچہ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا شرعًا و اخلاقًا و عرفًا سخت نا پسندیدہ  ہے،  اگر لڑکی نے  ولی کی اجازت کے بغیر   غیر کفو  میں  نکاح کیا   تو   اولاد ہونے سے پہلے پہلے لڑکی کے اَولیاء کو  عدالت سے  رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور  اگر کفو میں نکاح کیا ہے توپھر لڑکی کے اولیاء   کو وہ نکاح  فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ،  اور کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین، دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو، نیز کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح اگر شرعی  طریقہ پر تمام شرائط کے ساتھ ہو اتھا تو یہ نکاح صحیح تھا ، اور اگر غیر کفو میں ہوا تھا تو اولاد ہونے تک ولی کو بذریعہ عدالت اس نکاح کو فسخ کرانے کا حق تھا،  لیکن جب  ولی راضی ہوگیا ہے تو  اب  (اولاد نہ ہوئی ہو تو بھی) اس  کے فسخ کا اختیار بھی ختم ہوگیا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا".

 (3/ 55، کتاب النکاح ، باب الولی، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".

(2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )

(فتاوی عالمگیری، ۱/۲۹۲، کتاب النکاح، الباب الخامس فی الاکفاء فی النکاح، ط: رشیدیہ) 

         فتاوی شامی میں ہے:

"ونظم العلامة الحموي ما تعتبر فيه الكفاءة فقال:

إن الكفاءة في النكاح تكون في ... ست لها بيت بديع قد ضبط

نسب وإسلام كذلك حرفة ... حرية وديانة مال فقط".

 (3/ 86، کتاب النکاح، باب الکفاءۃ، ط: سعید)

فتح القدیرمیں ہے:

"لأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة، لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشةً للخسيس، فلا بد من اعتبارها، بخلاف جانبها؛ لأن الزوج مستفرش فلا تغيظه دناءة الفراش".

(3/ 293، کتاب النکاح، باب الاولیاء والاکفاء، فصل فی الکفاءۃ، ط: دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً، وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق. ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما". 

(1/ 292، کتاب النکاح، الباب الخامس فی الاکفاء فی النکاح، ط: رشیدیہ)

وفي حاشية ابن عابدين: (رد المحتار)

(قَوْلُهُ: وِلَايَةُ نَدْبٍ) أَيْ يُسْتَحَبُّ لِلْمَرْأَةِ تَفْوِيضُ أَمْرِهَا إلَى وَلِيِّهَا كَيْ لَا تُنْسَبَ إلَى الْوَقَاحَةِ بَحْرٌ وَلِلْخُرُوجِ مِنْ خِلَافِ الشَّافِعِيِّ فِي الْبِكْرِ، وَهَذِهِ فِي الْحَقِيقَةِ وَلَايَةُ وَكَالَة   (  3 / 55 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں