بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی طرف سے قربانی بلااجازت کرنا


سوال

اگر والد ناراض ہو ،اور اس کے نام پر قربانی ہو، کیا صورتِ  حال ہے؟ دوسری بات والد  کا کہنا یہ ہے  کہ ہم قربانی کو قبول نہیں کریں گے، اور ہم نے بہت سمجھایا، لیکن سننےکے  لیے تیار نہیں ہیں۔

جواب

اگر واقعۃً سائل کے والد پر قربانی واجب ہے، اور وہ خود قربانی نہیں کررہے، اورسائل ان کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے، لیکن سائل کے والد قربانی کی اجازت نہیں دے  رہے،تو اس صورت  میں اگر سائل والد کی اجازت کے بغیر ان کی  طرف سے واجب قربانی کرے گا، تو سائل کے والد  کی   واجب قربانی ادا نہیں ہوگی، بلکہ ان کے ذمہ قربانی کا وجوب بدستور باقی رہے گا اور اگر نفلی قربانی کر رہا ہے تو درست ہے اور والد کو بھی اس کا ثواب ملے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو ضحى ببدنة عن نفسه وعرسه وأولاده ليس هذا في ظاهر الرواية، وقال الحسن بن زياد في كتاب الأضحية: إن كان أولاده صغاراً جاز عنه وعنهم جميعاً في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى -، وإن كانوا كباراً إن فعل بأمرهم جاز عن الكل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى، وإن فعل بغير أمرهم أو بغير أمر بعضهم لاتجوز عنه ولا عنهم في قولهم جميعاً؛ لأن نصيب من لم يأمر صار لحماً فصار الكل لحماً."

(كتاب الأضحية،الباب السابع في التضحية عن الغير وفي التضحية بشاة الغير عن نفسه،302/5، ط: رشیدیة)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں