بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی نافرمانی حرام اور گناہ کبیرہ ہے


سوال

میری بہن جو مجھ سے بڑی ہے وہ اپنے شوہر اور سسر کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے اپنے والد کو دن رات اس کی برائیاں اور انتہائی برے القاب سے مخاطب کرتی ہے اور کوئی موقع نہیں چھوڑتی جس میں کہ وہ اپنے والد کی تذلیل نہ کرے۔ والد کو انتہائی ناپاک جانوروں سے تشبیہ دیتی ہے۔ حالانکہ والد  اسے ہمیشہ اچھے کام کی تلقین کرتا ہے اور ان کاموں سے اسے تنبیہ کرتا ہے جو اسکے حق میں نہ ہوں، جبکہ وہ سمجھتی ہے کہ اس کا والد جان بوجھ کے اس کی مخالفت کرتا ہے۔ بہت سمجھانے کے باوجود نہیں سمجھتی اور صبح و شام ہر وہ کام کر گزرتی  ہے جس میں اس کے والد کی دل آزاری ہو اور تذلیل ہو۔

جواب

واضح رہے کہ اولاد  پر ان تمام امور میں والدین کی اطاعت فرض ہے جن کی بجاآوری  میں شریعت کے کسی حکم کی مخالفت اور ٹکراؤ لازم نہ آئے، نیز والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرنا بھی شرعاً ضروری ہے، ان کی نافرمانی اور ایذا  رسانی  حرام اورکبیرہ گناہ  ہے، قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ  میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے،  اور والدین کی نافرمانی،  ان کے ساتھ   بدکلامی  کے ساتھ پیش آنے، اور والدین کو ستانے کی بہت وعیدیں آئی  ہیں۔

صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کی بہن کا والد کے ساتھ مذکورہ رویہ ہے تو یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے، سائل کی بہن کو چاہیے کہ وہ  اپنی اس نافرمانی پرفی الفور والد سے معافی مانگے اور اپنے اس گناہ پر صدق دل سے توبہ واستغفار بھی کرے، اور آئندہ کے لیے بھی سسرال والوں کی خوشنودی کےلیے والد جیسی عظیم ہستی کی نافرمانی کرکے اپنی آخرت خراب نہ کرے۔

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا} [الإسراء: 23، 24]

         ترجمہ: اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں  نےمجھ کو بچپن میں پالا، پرورش کیا ہے۔ ( ازبیان القرآن)

         ایک حدیث میں ہے:

1- "عن عبدالله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من الکبائر شتم الرجل والدیه، قالوا: یارسول الله وهل یشتم الرجل والدیه، قال: نعم، یسب أبا الرجل فیسب أباه ویسب أمه فیسب أمه. متفق علیه".

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الاول، ص: 419، ط: قدیمی)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ رسول کریم   صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا:اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر عرض کیا کہ یارسول اللہ! کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں(کبھی کبھار تو حقیقت میں بھی کوئی جاہل شخص اپنے ماں باپ کو گالی بک دیتا ہے، اور یہ تو اکثر ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ماں باپ کو اگرچہ حقیقۃً خود گالی نہیں دیتے مگر ان کو گالی دینے کا سبب ضرور بنتے ہیں اور وہ اس طرح کہ) اگر کوئی شخص کسی کے باپ کوگالی دیتا ہے تووہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور اگر کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔(مظاہر حق، ج:4، صفحہ: 468،ط: دارالاشاعت)

ملاحظہ کیجیے کہ دوسرے کے والدین کو گالی دینا جو اپنے والدین کو گالی دینے کا سبب ہے اسے کبیرہ گناہ قرار دیا جارہاہے، پھر براہِ راست اپنے والدین کو خود گالی دینا کتنا بڑا گناہ ہوگا!! اسی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حیرت سے سوال کیا کہ کیا کوئی اپنے والدین کو گالی بھی دے سکتاہے؟

2- "عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان". (مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث، ص: 421، ط: قدیمی)

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ  رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا: جس شخص نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ ماں باپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے والا ہے، یعنی: اس نے ماں باپ کے حقوق ادا کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی ہے تو وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوتے ہیں اور اگر اس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک زندہ ہو کہ جس کی اس نے اطاعت اور فرمانبرداری کی ہے تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے، اور جس شخص نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ ماں باپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا ہے( یعنی: اس نے ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی اور تقصیر کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی ہے) تو وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لیے دوزخ کے دو دروازے کھلے ہوتے ہیں، اور اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک زندہ ہو کہ جس کی اس نے نافرمانی کی ہے تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے۔ یہ ارشاد سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اگرچہ  ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نے کریں،اگرچہ  ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نے کریں،اگرچہ  ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں،۔(مظاہر حق، ج: 4، صفحہ: 486، ط: دارالاشاعت)

دیکھ لیجیے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تعلیم ارشاد فرمائی؟ والدین خواہ ظالم ہی کیوں نہ ہوں، اولاد کا کام ان کا احتساب یا اصلاح نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں بھی اولاد کا فرض ان کی اطاعت ہے، والدین سے ان کا رب خود حساب لے لے گا، لیکن اس صورت میں اولاد نافرمانی کرے گی تو وہ اللہ کے ہاں غضب کی مستحق ہوگی، اور اس کے لیے جہنم کا دروازہ کھل جائے گا۔

4- "عن أبي أمامة، أنّ رجلا قال: يا رسول اللّه، ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: «هما جنتك ونارك»".

(مشکاۃ المصابیح، باب البر والصلۃ، ج: 2، ص: 421، ط: قدیمی)

         ترجمہ:  حضرت ابو  امامہ رضی  اللہ  عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہ؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ماں باپ تمہارے لیے جنت بھی اور دوزخ بھی۔(مظاہر حق، ج:4، صفحہ: 485، ط: دارالاشاعت)

 صورت مسئولہ میں بیٹی کا باپ کے  ساتھ مذکورہ  رویہ اور سلوک  ناجائز  اور کبیرہ گناہ ہے،  جس کا خمیازہ آخرت کے علاوہ دنیا میں  بھی بھگتنا پڑتا ہے، اس پر لازم ہے کہ  اپنے اس رویہ سے توبہ کرے، والد کی خدمت کرے،ان کے بڑھاپے میں ان   کا سہارا بنے ، جیساکہ بچپن میں وہ ان کا سہارا بنے تھے، اور مشقتیں اٹھا کر اس  کو پالا تھا، اور ان کی زندگی کو اپنے لیے سعادت کا باعث سمجھے،باقی  گالی تو کسی عام مسلمان کو دینا بھی گناہ اور ناجائز ہے چہ جائے کہ والد  جیسی ہستی کو گالی دی جائے، یہ انتہائی بدبختی اور شقاوت ہے،سائلہ کی بہن  پر لازم ہے  کہ اپنے اس عمل پر اللہ سے بھی اور اپنے  والد سے بھی معافی مانگے ، ورنہ کہیں آخرت بلکہ آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102519

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں