بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے نکاح نہ کرانے پر لڑکی کا از خود نکاح کرلینا


سوال

میں نے گھر  میں بنا بتائے  نکاح کیا تھا، اب گھر والے مان نہیں رہے، لیکن اس سے پہلے میں نے گھر میں کہا تھا کہ شادی کردیں ، کسی نے توجہ نہیں دی، میری عمر  29 سال ہے، اب آپ بتائیں کہ میں کس کا ساتھ دوں گھر کا یا شوہر کا؟

جواب

 اگر عاقلہ بالغہ  لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے تو شرعًا ایسا  نکاح منعقد  ہوجاتا ہے،  اگرچہ  والدین  کی  رضامندی  کے بغیر  نکاح  کرنا شرعًا  و  اخلاقًا پسندیدہ نہیں  ہے،   اگر  لڑکی  نے  ولی  کی  اجازت  کے بغیر    غیر کفو  میں  نکاح  کیا   تو   اولاد  ہونے  سے  پہلے  پہلے  لڑکی  کے  اولیاء کو  عدالت  سے  رجوع کرکے  اس  نکاح  کو   فسخ   کرنے  کا اختیار   ہوتا  ہے، اور   اگر  کفو   میں  نکاح  کیا ہے تو پھر لڑکی  کے اولیاء   کو  وہ  نکاح   فسخ  کرنے  کا اختیار نہیں ہوتا ،  اور کفو  کا مطلب  یہ  ہے کہ  لڑکا دین،دیانت، مال ونسب، پیشہ  اور تعلیم میں لڑ کی کے  ہم  پلہ   ہو ، اس سے کم نہ ہو، نیز کفاءت میں مرد  کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ اور آپ کے بالغ شوہر نے   دو گواہوں کی موجودگی میں  نکاح  کرلیا ہے تو  مذکورہ نکاح شرعاً منعقد ہو چکا ہے، اور اگر لڑکا لڑکی کا کفو بھی ہے تو اولیاء کو اعتراض کا نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، اگر لڑکا  کفو نہیں ہے  والدین کو عدالت کے ذریعے نکاح  فسخ کرانے کا حق حاصل ہوگا۔ باقی والدین کی رضامندی کے بغیر یوں چھپ کر نکاح کرنا شرعاً، عرفاً اور اخلاقاً سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ اسلامی معاشرتی احکام اور آداب کی روشنی میں والدین اولاد کے لیے فیصلہ کرتے ہیں،  یا اولاد والدین کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرتے ہیں، بہر حال ان معاملات میں سرپرستی بزرگوں کی ہونی چاہیے۔ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا بہت ہی ناپسندیدہ ہے، تاہم نکاح شرعاً منعقد ہوچکاہے،  اب حکم یہ ہے کہ والدین کو منانے اور اور ان کوراضٰی کرنے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے، والدین کو بھی اب راضی ہوجانا چاہیے اور نارضیاں مٹاکر رشتوں اور تعلقات کو استوار کرلینا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا."

(3/ 55، کتاب النکاح ، باب الولی، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة و زفر و أبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حقّ الاعتراض."

(2/ 247، کتاب النکاح، فصل ولایة الندب و الاستحباب في النکاح، ط: سعید )

(فتاوی عالمگیری، ۱/۲۹۲، کتاب النکاح، الباب الخامس فی الاکفاء فی النکاح، ط: رشیدیہ) 

         فتاوی شامی میں ہے:

"و نظم العلامة الحموي ما تعتبر فيه الكفاءة فقال:

إن الكفاءة في النكاح تكون في ... ست لها بيت بديع قد ضبط

نسب و إسلام كذلك حرفة ... حرية و ديانة مال فقط."

 (3/ 86، کتاب النکاح، باب الکفاءۃ، ط: سعید)

فتح القدیرمیں ہے:

"لأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة، لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشةً للخسيس، فلا بد من اعتبارها، بخلاف جانبها؛ لأن الزوج مستفرش فلا تغيظه دناءة الفراش".

(3/ 293، کتاب النکاح، باب الاولیاء والاکفاء، فصل فی الکفاءۃ، ط: دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً، وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، و لكن للأولياء حق الاعتراض ... و في البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكرًا كانت أو ثيبًا على قول الإمام الأعظم، و هذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق. و لايكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلاينفسخ النكاح بينهما."

(1/ 292، کتاب النکاح، الباب الخامس فی الاکفاء فی النکاح، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200874

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں