بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کا نفلی صدقہ خود استعمال کرنا


سوال

کیا نفلی صدقہ وکیل خود استعما ل کر سکتا ہے؟

جواب

وکیل اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں شریعت، عرف اور موکل کے احکامات کا پابند ہوتا ہے،  اگر  موکل نے وکیل کو کسی کوصدقہ دینے کے لیے رقم دی ہو تو وکیل خود اس کو اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لاسکتا،  البتہ اگر موکل نے وکیل کو اس کی اجازت دی ہو کہ اسے آپ خود بھی استعمال کرسکتے ہو  یا اسے مکمل اختیار دیاہو کہ ” آپ اسے جہاں چاہیں خرچ کردیں“  تو اس صورت میں موکل کی منشا  کے مطابق وکیل اسے خود بھی استعمال کرسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.

(قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئًا ملكوه وصار خالطًا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع". (2/ 269، کتاب الزکوٰۃ، ط: سعید)

الموسوعہ الفقہیہ   میں ہے:

"الوكيل أثناء قيامه بتنفيذ الوكالة مقيد بما يقضي به الشرع من عدم الإضرار بالموكل؛ لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر ولا ضرار، ومقيد بما يأمره به موكله، كما أنه مقيد بما يقضي به العرف إذا كانت الوكالة مطلقة عن القيود، فإذا خالف كان متعديًا ووجب الضمان". (45/ 87،  الوکالۃ ، ضمان الوكيل ما تحت يده من أموال، ط: طبع الوزارة)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں