اگر مکان کرایہ پر دیا ہو اور کرایہ ملنے کی امید ہے، لیکن ابھی تک کرایہ ملا نہیں ہے تو اس کرایہ کو قابل زکوۃ اثاثوں میں شمار کیا جائے گا یا نہیں؟
کرایہ کی رقم جب تک وصول نہ ہوجائے وہ ملازم کی ملکیت میں نہیں آتی، بلکہ کرایہ دار کے ذمہ واجب الادا ہوتی ہے اور یہ دین ضعیف ہے؛ لہذا جب تک وصول نہ ہو تب تک اس کی زکوۃ آپ پر لازم نہیں ۔
"و أما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -: ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلاً عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلاً عن شيء كالوصية أو بفعله بدلاً عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصاباً ويحول عليه الحول."
(1/ 175،کتاب الزکوۃ، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ط: رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203200311
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن