بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وائرس کی وبا کے عرصہ میں اذان دینا


سوال

کیا کرونا وائرس کی وجہ سے اذان کے اوقات کے علاوہ اذان دینا بدعت ہے؟

جواب

وبا کے خاتمے کے لیے اذان دینا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، نیز فقہائے احناف سے بھی اس موقع پر اذان دینے کے بارے میں کوئی روایت منقول نہیں ہے، البتہ شوافع کے ہاں  مصائب، شدائد اور عمومی پریشانیوں کے بعض مواقع پر اذان دینے کی اجازت منقول ہے؛ اس لیے وبا کے خاتمے کے لیے اذان دینے کی گنجائش ہوگی، تاہم یہ اذان مساجد میں نہ دی جائے،  نیز اس انداز سے بھی نہ دی جائے کہ نماز کے لیے اذان ہونے کا اشتباہ ہو۔

جامعہ ہٰذا کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’سوال:

کسی عظیم حادثے کے نازل ہونے کے بعد مسجدوں میں رات کے وقت اذانیں دی جائیں؛ تاکہ اس کی برکت سے بلا رفع ہوجائے، کیا اس کا کوئی شرعی ثبوت ہے؟

جواب:

صورتِ مسئولہ میں احناف سے اس بارے میں کوئی روایت منقول نہیں، البتہ شوافع کے اقوال سے مسنون معلوم ہوتاہے، جس پر علامہ شامی رحمہ اللہ نے کہاہے کہ ایسے مواقع پر اذان دی جائے تو ہمارے نزدیک بھی اس کی گنجائش ہے؛  لما في رد المحتار:

’’ولا بعد فيه عندنا...‘‘ الخ

(کتاب الصلاة، باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب لها الأذان في غیر الصلاة، (1/385) ط: سعید)

البتہ یہ اذان مسجدوں میں نہ دی جائے؛ تاکہ اذانِ صلاۃ کے ساتھ التباس نہ ہوجائے۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: محمد عبدالسلام چاٹ گامی                                                                       الجواب صحیح: ولی حسن‘‘

’’کفایت المفتی‘‘  (از مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب  رحمہ اللہ) میں ہے :

’’سوال : دفعِ وباء کے لیے اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟  تنہا یا گروہ کے ساتھ مسجد میں یا گھر میں؟

جواب : دفعِ وباء کے لیے اذانیں دینا تنہا یا جمع ہوکر بطورِ علاج اور عمل کے مباح ہے، سنت یا مستحب نہیں‘‘۔  (۳ / ۵۲، دار الاشاعت )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں