بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ووٹ کس کو دیں؟


سوال

پورے شہر والوں نے مل کر کسی وجہ سے اپنے صوبہ کے سی ایم (چیف منسٹر)کو بد دعا کی تھی ۔ اب ان کو ووٹ دے سکتے  ہیں  یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ووٹ   دینے  کی از روئے  قرآن و  حدیث چند حیثیتیں ہیں:

ایک حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے، اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور  دیانت اور  امانت بھی،اس اعتبار  سے  غیر مستحق امیدوار کو ووٹ دینا جھوٹی گواہی ہے  جو کہ گناہِ کبیرہ ہے ۔ 

دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتاہے۔

ووٹ کی ایک تیسری حیثیت  وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے ،لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی (ذاتی) حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا اور اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا، توپھر بھی معاملہ ہلکا تھا،مگر یہاں ایسا نہیں، کیوں کہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جس میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے ، اس  لیے اگر کسی نا اہل کو اپنی نمائندگی  کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کے گردن پر رہا۔

خلاصہ یہ ہے کہ  ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے:

۱:… ایک شہادت۔۲:… دوسرے سفارش۔۳:… تیسرے حقوقِ مشترکہ میں وکالت۔

تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک ، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثوابِ عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں، اسی طرح نا اہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ  میں اگر مذکورہ شخص  ووٹ  لینے  کی اہلیت رکھتا ہے تو اس کو ووٹ دینا شرعًا جائز ہوگا اور  اگر اس کے ظلم اور دھوکا  خیانت کی وجہ سے قوم اس کو بددعا دیتی ہے اور وہ اس کا اہل نہیں تو اس صورت میں اس کو ووٹ دینا شرعًا جائز نہیں ہوگا۔

جواہر الفتاوی میں ہے :

"حضرت مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر معارف القرآن اور جواہر الفقہ میں لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :کہ شرعی اعتبار سے ووٹ دینا در اصل اس بات کی شہادت دینا ہوتا ہے کہ جس کو ووٹ دیا جارہا ہے وہ اس کی نمائندگی کے لیے اہل ہے اس کے اندر تمام صفات و اہلیت کی تمام شرائط لازمی موجود ہیں ،نیز ووٹ دینا ایک شرعی امانت داری ذمہ داری کو ادا کرنا ہوتا ہے ،ووٹ دینے والا ووٹ دے کر قومی امانت کے بار امانت کو منتخب نمائندہ کے سپرد کرتا ہے ،تیسرے اس میں وکالت بھی ہوتی ہے کہ ووٹ دینے والا شخص ،نمائندہ کو اپنا وکیل بنا دیتا ہے کہ وہ جو کچھ کرے گا اس کے گناہ و ثواب  میں ووٹ دینے والا بھی شریک ہوگا ۔"

(جواہر الفتاوی،ج:۳،ص:۳۵۰،اسلامی کتب خانہ )

قرآن مجید میں ہے :

"إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا." ﴿النساء: ٥٨﴾

تفسیر مظہری میں ہے :

"من يشفع شفاعة حسنة راعى بها حق مسلم ودفع بها عنه ضررًا أو جلب نفعًا لوجه الله تعالى يكن له أي للشافع نصيب منها و هو ثواب الشفاعة، قال مجاهد: هي شفاعة بعضهم لبعض و يؤجر الشفيع على شفاعته و إن لم يشفع ... و من يشفع شفاعةً سيئةً الموجبة للحرمان، و قال ابن عباس: هي المشي بالنميمة و قيل: هي الغيبة و إساءة القول في الناس ينال به الشر يكن له كفل أي حظمنها أي من وزرها."

(سورة النساء،آيت :۸۵،ج:۲،ص:۱۷۲،مکتبۃ الرشدیۃ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100697

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں