بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ سفر میں سنتِ مؤکدہ پڑھنا بہتر ہے یا چھوڑنا؟


سوال

حالتِ سفر میں سنتِ  مؤکدہ  پڑھنا بہتر  ہے یا چھوڑنا؟

جواب

حالتِ سفر میں سنتیں پڑھنے کے  بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر سفر جاری ہو اورجلدی ہو یا گاڑی نکلنے کا اندیشہ ہو، یا ساتھیوں کو پریشانی ہورہی ہو، یا خوف ہو تو   پھر صرف فرائض اور واجب کی ادائیگی کافی ہے، اور فجر کی سنتوں کے علاوہ باقی سنتوں کو چھوڑنا جائز ہے، البتہ فجر  کی سنتوں کی تاکید چوں کہ زیادہ ہے، اس  لیے فجر کے فرائض کے ساتھ وہ بھی پڑھی جائیں گی اور اگر سفر جاری ہو ،  کسی مقام پر نماز کے لیے ہی رکے ہوں ، جلدی نہ ہو  اور اطمینان  ہو یا  کسی مقام پر  پندرہ  دن  سے  کم ہی کہیں نہ ٹھہرےہو، تو سنتوں  کا  پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔

البحرالرائق میں ہے:

"و قيد بالفرض؛ لأنه لا قصر في الوتر و السنن و اختلفوا في ترك السنن في السفر، فقيل: الأفضل هو الترك ترخيصاً، و قيل: الفعل تقرباً، وقال الهندواني: الفعل حال النزول و الترك حال السير، و قيل: يصلي سنة الفجر خاصةً، و قيل: سنة المغرب أيضاً، و في التجنيس: و المختار أنه إن كان حال أمن و قرار يأتي بها؛ لأنها شرعت مكملات و المسافر إليه محتاج، و إن كان حال خوف لايأتي بها؛ لأنه ترك بعذر اهـ ."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:2، ص:141، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100101

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں