بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیوز لائک کرکے پیسہ کمانے کا حکم


سوال

 ایک کمپنی ہے، اگر آپ اس میں رجسٹر ہوتے ہیں تو ان کے مختلف پیکج ہیں ،جیسے مثال کے طور پر  15 ہزار والا پیکج لگواتے ہیں تو اس پر آپ کو ہر روز یوٹیوب کی 10 ویڈیوز کے لنک آتے ہیں ،ان کو کھول کر بس لائک کرنا ہے، مکمل ویڈیو دیکھنا ضروری نہیں اور ویڈیو بھی غیر اخلاقی نہیں بلکہ کھانا پکانے یا ورزش وغیرہ کی ہوں گی اس پر ہمیں ہر روز 600 روپے ملیں گے، کیا رقم جائز ہے؟ 15 ہزار بھی 6 ماہ بعد واپس مل جائیں گے؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ کمپنی سے رقم حاصل کرنا درج ذیل  مفاسد کی وجہ سے  ناجائز ہے :

مذکورہ  کمپنی  کی جانب سے روزانہ لائک کرنے کے لیے جو ٹاسک ملتا ہے اور اس پر کلک کرنے پر بطور معاوضہ پیسہ دیا جاتا ہے یہ بظاہر اجارہ کا معاملہ ہے ؛لیکن اس  میں خرابی یہ ہے کہ اجارہ میں اجیر سے کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا بلکہ اجیر کو اس کے عمل پر محنتانہ دیا جاتا ہے جبکہ مذکورہ  کمپنی  میں اجیر کو پہلے رقم پیش کرنی ہوتی ہے اور اس پر اس کو ٹاسک ملتا ہے جتنی رقم زیادہ ہوگی اسی حساب سے روزانہ کی کمائی بھی بڑھے گی،مزید یہ کہ ٹاسک پر کلک کرنا  فی نفسہ کوئی  مفید عمل نہیں جس پر اجارہ کو درست کہا جا سکے۔

اور دوسری خرابی یہ ہے کہ مذکورہ کمپنی   کے بھیجے جانے والے لنک گوغیراخلاقی نہ بھی ہوں پھر بھی  جاندار کی  یا نامحرم کی تصویر پر مشتمل  ہوتے ہیں جن کودیکھ کر اس کو لائک کیا جاتا ہے ۔اور جان دار اشیاء اور غیر محرم کی تصاویر دیکھنا اور اس کو لائک کرنا شرعاً جائز ہی  نہیں ہے چہ جائیکہ اس عمل کوآمدن کاذریعہ بنایا جائے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"‌والأجرة ‌إنما ‌تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل".

(باب المہر،ج:3،ص:156،سعید)

البحر الرائق میں ہے :

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: ‌تصوير ‌صور ‌الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ. فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."

(باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الاسلامی)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے :

"الإجارۃ علی المنافع المحرمۃ کالزنی والنوح والغناء والملاہی محرمۃ وعقدہا باطل لا یستحق بہٖ أجرۃ۔ ولا یجوز استئجار کاتب لیکتب لہٗ غنائً ونوحًا ، لأنہٗ انتفاع بمحرم۔ وقال أبو حنیفۃ : یجوز ، ولا یجوز الاستئجار علی حمل الخمر لمن یشربہا ، ولا علی حمل الخنزیر."

(کتاب الاجارۃ،الاجارۃ علی المعاصی ،ج:1،ص:290،دارالسلاسل)

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144502101107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں