بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیو کال کے ذریعہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنے کا حکم


سوال

ویڈیو کال پرگواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنا کیسا ہے؟

جواب

ویڈیو کال کے ذریعہ ایجاب و قبول کرنے سے شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوتا، چاہے گواہوں کی موجودگی میں ہی کیوں نہ ہو؛ کیوں کہ جس طرح نکاح کے درست ہونے کے لیے گواہوں کی موجودگی شرط ہے، اسی طرح نکاح کے رکن یعنی ایجاب و قبول کے درست و معتبر ہونے کے لیے اتحادِ مجلس (مجلس کا ایک ہونا) شرط ہے، جو کہ ٹیلی فون پر نکاح کی صورت میں نہیں پائی جارہی، کیوں کہ ایجاب کرنے والا کہیں اور ہوتا ہے اور قبول کرنے والا کہیں اور ۔

البتہ ٹیلی فون پر نکاح کے جواز کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ فریقین (مرد و عورت) میں سے کوئی ایک فریق فون پر کسی ایسے آدمی کو اپنا وکیل بنادے جو دوسرے فریق کے پاس موجود ہو، اور وہ وکیل دو گواہوں (یعنی دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں فریق اول (غائب) کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کرلے تو اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 14):

"ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين.

 (قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد".

الفتاوى الهندية (1/ 269):

"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231):

"ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم  أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم  أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم  عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں