بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عذر کی وجہ سے ابارشن کرانا


سوال

میرے 2 بچے ہیں اور دونوں آپریشن کے ذریعے پیدا ہوئے ہیں ۔ میری بڑی بیٹی 1 سال اور 9 ماہ کی ہےاور چھوٹی بیٹی 9 ماہ کی ہے اب میں دوبارہ امید سے ہوں اور اب میں ایک بار پھر آپریشن نہیں کروا سکتی،تو اگر اپنی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں abortionکروا لوں ۔ کیا یہ جائز ہوگا ؟ 

جواب

 اگر حمل چار  ماہ سے کم کا ہےاور  دین دار ، ماہر ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ بچے  کی پیدائش کی وجہ سے ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت حمل  کاتحمل نہیں کرسکتی تو اِسقاطِ حمل کی گنجائش ہے،لیکن اگر حمل چار ماہ  کا ہے تو اس کو ضائع کرنے کی  شرعا اجازت نہیں ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر  حمل چار ماہ سے کم کا ہے اور ماہر دین دار ڈاکٹر کے نزدیک فی الحال آپ کی صحت  حمل  اور (آپریشن کی ذریعہ) ولادت کا تحمل نہیں کرسکے گی  تو پھر حمل گرانے کی گنجائش ہوگی ورنہ نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و يكره أن تسقى لإسقاط حملها ... و جاز لعذر حيث لايتصور.

(قوله: و يكره إلخ) أي مطلقًا قبل التصور و بعده على ما اختاره في الخانية كما قدمناه قبيل الاستبراء، و قال: إلا أنها لاتأثم إثم القتل (قوله: و جاز لعذر) كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل و انقطع لبنها و ليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر و يخاف هلاك الولد قالوا يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له عضو وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يومًا، وجاز لأنه ليس بآدمي و فيه صيانة الآدمي خانية (قوله: حيث لايتصور) قيد لقوله: وجاز لعذر والتصور كما في القنية أن يظهر له شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذلك."

(کتاب الحظر و الاباحۃ ج 6،ص 429،ط؛ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں